جمہوری اور قانونی راستہ اختیار کرنے سے ہی پاکستان کو مستحکم بنایاجاسکتاہے،ووٹ کے ذریعے احتساب کاعمل سیاسی جماعتوں کیلئے سبق ہے، جذباتی نعروں کی سیاست کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے، عوام کو طمینان ہوا کہ اس جماعت نے بہتر کام کیا ہے تو وہ اسے دوبارہ ووٹ دیں گے، عوام مطمئن ہوں گے تو پسند اور ناپسند کے معیار بدل جائیں گے

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید کا ”اے پی پی“ کو انٹرویو

جمعہ 26 اگست 2016 18:09

اسلام آباد ۔ 26 اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔26 اگست ۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ جمہوری اور قانونی راستہ اختیار کرنے سے ہی پاکستان کو مستحکم بنایاجاسکتاہے، ووٹ کے ذریعے احتساب کا عمل سیاسی جماعتوں کیلئے سبق ہے، جذباتی نعروں کی سیاست کمزور ہو گئی اور عوام کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے، اگر عوام کو طمینان ہوا کہ اس جماعت نے بہتر کام کیا ہے تو وہ آئندہ الیکشن میں اسے دوبارہ ووٹ دیں گے، عوام مطمئن ہوں گے تو پسند اور ناپسند کے معیار بدل جائیں گے۔

ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے ”اے پی پی“ سے ایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ سیاسی صورتحال ، ووٹ کے ذریعے سیاسی حکومتوں کے قیام اور پانچ سالہ مدت پوری ہونے سے جمہوریت کی جڑیں مزید مضبوط ہو رہی ہیں اور غیر جمہوری حکومتوں اور مارشل لاء کی وجہ سے جن عوامی مسائل کی طرف بھر پور حکومتی توجہ نہیں دی جا سکی تھی اس کے اثرات بھی زائل ہو رہے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ تبدیلی اب نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آمریت کے طویل ادوار میں بعض اداروں کے اپنی حد سے تجاوز نے بھی مسائل پیدا کئے۔ اب ان اداروں نے فکری طور پر یہ بات تسلیم کرلی ہے کہ اداروں کے استحکام کیلئے حدود و قیود کے تعین کے بغیر چارہ کارنہیں۔ ادارے ایک دن میں واپس اپنی حدوں پر نہیں آسکتے۔ یہ تدریجی عمل کا ایک حصہ ہوتے ہیں، کسی انجکشن یا وٹا منز سے راتوں رات فعال نہیں کئے جاسکت، جمہوری اور قانونی راستہ اختیار کرنے سے ہی پاکستان کو مستحکم بنایاجاسکتاہے ۔

وزیر اطلاعات ونشریات پرویز رشید نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر وفاق کی دو بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے دستخط کئے تھے جبکہ باقی جماعتوں نے بھی اس پر تقریباً اتفاق کیا تھا۔ ان دو جماعتوں کے ٹکراؤ کی وجہ سے 1999ء سے قبل 58 ٹو بی کا اطلاق اور فوجی حکومت کا کاراستہ ہموار ہوا مگر اب ان میں سے ایک پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے جبکہ دوسری مکمل کرنے جارہی ہے۔

دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ایک سیاسی قیادت، جو ان المیوں سے نہیں گزری، وہ سیاسی نظام کو منہدم کرناچاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس المیے کا شکار 2008ء سے 2013ء تک رہا اور اب 2018ء کی طرف سفر جاری ہے اور بہتر آثار نظر آرہے ہیں۔ عوام آئندہ الیکشن میں دیکھ بھال کر ہی ووٹ دیں گے اور اسی سیاسی قیادت کو آگے لائیں گے جس نے ان کے مسائل حل کئے۔

ووٹ کے ذریعے احتساب کاعمل سیاسی جماعتوں کیلیئے سبق ہے۔ جذباتی نعروں کی سیاست کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی زندگی بہتر بنانے کی طرف توجہ دی جارہی ہے۔ وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید کاکہنا تھا کہ سیاسی استحکام سے اسٹیبلشمنٹ کے کردار میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ اب حکومت کی حمایت سے فوج نے یہ ذمہ دار ی لی ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے آپریشن کامیابی سے جاری ہے اور یہ پہلو زیادہ پیش نظر ہے کہ اس عفریت کو ختم کرنے میں وہ اپنا کردار ادا کرے کیونکہ ملک کی سلامتی کیلئے یہ بات بہر حال مقدم ہے۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے ایک سوال پر وزیر اطلاعات نے کہاکہ حکومت اور دیگر جماعتیں قوانین سازی کرناچاہتی ہیں۔ ساری جماعتیں مل کر ایسا قانون بنائیں کہ بد عنوانی ممکن ہی نہ رہے، جس میں فوری نشاندہی اور نظام صاف شفاف ہو اور بد عنوانی کو کسی صورت برداشت نہ کیاجائے، یہی احتساب کی صورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ 2013ء کے انتخابات میں عوام نے مسلم لیگ (ن) کوووٹ دیا، اگر انہیں طمینان ہوا کہ اس جماعت نے بہتر کام کیا ہے تو وہ اسے دوبارہ ووٹ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں میگاپراجیکٹ شروع ہو چکے ہیں لیکن ابھی ان کے نتائج سامنے نہیں آئے، انتخابی مہم میں ان منصوبوں کا ذکر تو ہو گا، اس لئے یہ مسلم لیگ (ن) کاامتحان ہو گا، عوام مطمئن ہوں گے تو پسند اور ناپسند کے معیار بدل جائیں گے۔ نئی سیاسی مہم میں میڈیا کاکردار بھی اہم ہو گا۔انہوں نے کہا کہ پہلی بار ووٹ کے ذریعے پانچ سالہ حکومت مکمل ہوئی اور اب 2018ء میں نئی حکومت آئے گی اور اس طرح دس سال میں ووٹ کے تقدس کو تسلیم کیا گیا ہے۔

وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہاکہ قبل ازیں بھی وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکومت ہوا کرتی تھی مگر اب ماضی کے مقابلے میں اعتماد کے ساتھ مل جل کر کام ہورہا ہے ۔ شکایات اگرچہ موجود ہیں لیکن ان کے ختم ہونے کا احساس بدرجہ اتم موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بر عکس ایوب خان کے دور میں پاکستان میں اگرچہ ایک ہی حکومت تھی لیکن مخالفانہ تحریکیں بھی موجود تھیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بھی چاروں صوبوں میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی مگر سیاسی ہم آہنگی کے حوالے سے حالات اس قدر بہتر نہیں تھے۔ ملک کور درپیش مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہاکہ دہشت گردی ، انتہا پسندی ، فرقہ واریت اور لسانی تقسیم پر قابو پانے سے امن وامان کی صورت حال میں بہتری کے آثار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب وہ صورتحال نہیں ہے، نئے طریق کار کے مطابق معیشت بہتر ہورہی ہے، غیر ممالک کا اعتماد بحال ہو رہاہے، قومی تہوار جوش و خروش سے منائے جارہے ہیں، وہ سیاسی عفریت جو بعض جماعتوں کی عسکری ونگ اور اسی نوعیت کی تنظیموں کی موجودگی میں وجود میں آچکے تھے ان پر گرفت نظر آرہی ہے ۔

اس کی تازہ مثال کراچی میں بغیر طاقت استعمال کئے اور اچھی حکمت عملی سے ایم کیو ایم کو عسکری سوچ سے علیحدہ کرکے اورایک منتخب نمائندہ جماعت کے آئینی کردار کی طرف واپس لانے میں کامیابی کا حصول ہے جو قابل ستائش اور یہ جمہوری سوچ کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ اب شہر بندنہیں ہوتے اور یہ ایسی کامیابیاں ہیں جو سیاسی، جمہوری ، قانونی اور آئینی راستہ اختیار کرنے سے پاکستان کو ملی ہیں۔

اگر یہ سفر جاری رہتاہے تو ملک اور عوام کے مسائل بہتر معیار زندگی ، خوراک، ٹرانسپورٹ ، روزگار ، بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال ، تعلیم اور دیگر مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو حقیقی شکل دی جاسکتی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ فکری طور پر اس بات اور حقیقت کو تسلیم کرلیاگیاہے کہ اداروں کو مستحکم کرنے سے ریاستی وجود تقویت پاتاہے اور بلاشبہ اداروں نے اس بارے میں عملی طورپر اقدامات کئے ہیں جن کے نتیجے میں عدلیہ اور پارلیمنٹ پہلے کی نسبت زیادہ آزاد اور خود مختار ہیں اور آئینی ذمہ داریوں کے حوالے سے بہتر اور موٴثر کردار ادا کررہے ہیں۔

نت نئے تجربات کے برعکس اب پاکستان میں آزمودہ نسخوں کو اپنانے سے عوامی مسائل کو حل کرنے کیلئے اتفاق رائے پر جس ضرورت کااحساس پیداہواہے اسے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں نے قبول کرنے کی طرف قدم بڑھایا ہے۔