خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی آئل فیلڈ سے اربوں روپے کا کروڈ آئل چوری یا گیا‘

چوری میں مول کمپنی اور د یگر محکمہ ملوث ہیں‘ تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو پنکچر کرکے آئل ٹینکرز میں آلٹریشن کرکے میٹر بند کرکے 500 سے 10000 لیٹر اضافی آئل بھر کر چوری کیا جاتا رہا ‘پانی کے ٹینکرز پانی سپلائی کرکے واپسی پر آئل بھر کر لاتے رہے‘ اب تک کی جانے والی تحقیقات سے چوری ثابت ہورہی ہے‘ مول کمپنی تحقیقات کے لئے تعاون نہیں کررہی‘ مقامی پولیس نے انکوائری میں ڈرائیور اور کلینرز تک تحقیقات کرکے ناقص کیس بنائے اور مول کمپنی سمیت ملوث ذمہ داران کو تحقیقات میں شامل نہیں کیا‘ اب تک 100 سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 150 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کے اجلاس میں ایف آئی اے حکام کی بریفنگ

جمعہ 26 اگست 2016 16:49

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔26 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک کی آئل فیلڈ سے اربوں روپے کا کروڈ آئل چوری یا گیا‘ چوری میں مول کمپنی اور د یگر محکمہ ملوث ہیں‘ اب تک تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو پنکچر کرکے آئل ٹینکرز ممیں آلٹریشن کرکے میٹر بند کرکے 500 سے 10000 لیٹر اضافی آئل بھر کر چوری کیا جاتا رہا اور پانی کے ٹینکرز پانی سپلائی کرکے واپسی پر آئل بھر کر لاتے رہے‘ اب تک کی جانے والی تحقیقات سے چوری ثابت ہورہی ہے‘ مول کمپنی تحقیقات کے لئے تعاون نہیں کررہی‘ مقامی پولیس نے انکوائری میں ڈرائیور اور کلینرز تک تحقیقات کرکے ناقص کیس بنائے اور مول کمپنی سمیت ملوث ذمہ داران کو تحقیقات میں شامل نہیں کیا‘ اب تک 100 سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 150 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار ایف آئی اے حکام نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا سیکرٹری پٹرولیم نے کہا کمیٹی کو آگاہ کیا کہ قومی سرمایہ کی چوری پر تشویش ہے تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں انکوائری مکمل ہونے کے بعد کارروائی کریں گے‘ اکرم درانی نے کہا کہ مول کمپنی چوری میں ملوث ہے اور سب سے زیادہ چوری اس نے کی ہے اور تحقیقات میں بھی تعاون نہیں کررہی اتنی طاقت ور ہے کہ وزارت پٹرولیم کے کنٹرول سے باہر ہے اربوں روپے کی چوری کی جارہی ہے کمیٹی کے چیئرمین اوگرا سمیت متعلقہ محکموں کو اگلے اجلاس میں طلب کریں۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پٹرولیم و قدرتی وسائل کا اجلاس ملک امتیاز خان کی صدارت میں ہوا۔ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں کروڈ آئل کی چوری کے حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر نے اپنی تحقیقات سے کمیٹی کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضعل کرک کی آئل فیلڈ سے چوری کے حوالے سے یہ شکایات سامنے آئی تھیں کہ تین طرح سے آئل چوری کیا گیا ہے۔

پہلا الزام یہ ہے کہ ٹرانسمیشن لائن کو پنکچر کرکے تیل چوری کیا گیا دوسرا الزام یہ ہے کہ آئل ٹینکرز کے سائز میں آلٹریشن کرکے میٹر بند کرکے پانچ سو لیٹر سے ایک ہزار لیٹر اضافی ٹینکرز میں ڈال کر چوری کی۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ پانی سپلائی کرنے والے ٹینکرز پانی سپلائی کرنے کے بعد واپسی پر تیل بھر کر لاتے تھے اور چوری کرتے تھے۔ کرک اور کوہاٹ میں 100سے زائد ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور ایک سو پچاس ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے 98 گاڑیاں ضبط کی گئی ہیں۔

خیبر پختونخوا کا توانائی ڈیپارٹمنٹ بھی معاملہ کی انکوائری کررہا ہے اب تک جو ریکارڈ سامنے آیا ہے اس کے مطابق چوری ہوتی رہی ہے۔ پولیس نے بھی انکوائری کی لیکن تمام کیسز میں انہوں نے ڈرائیورز اور کلینرز تک کیسز کو محدود کیا اور اعلیٰ سطح کے ذمہ داروں کو تحقیقات میں شامل نہیں کیا۔ چوری میں دو سو پچاس پانی کے سپلائی کرنے والے ٹینکرز (بوزرز) استعمال کئے گئے۔

مول کمپنی نے ان کے خلاف ایکشن نہیں لیا کچھ کو عارضی طور پر پانی کی سپلائی سے روکا اور کچھ کو مستقل بین کیا تحقیقات میں مول کمپنی کوئی تعاون نہیں کررہی۔ اس چوری میں محکمہ کے لوگ بھی ملوث ہیں ر کن کمیٹی اکرم درانی نے کہا کہ سب سے زیادہ چوری مول کمپنی نے کی ہے اور ڈیپارٹمنٹ کی خاموشی اور معاملہ کو طول دینا بھی اس میں شامل ہے۔ مول اتنی طاقت ورک ہے کہ چوری بھی کرتی ہے اور تحقیقات کے لئے بھی تعاون نہیں کرتی اور وزارت پٹرولیم کے کنٹرول سے باہر ہے۔

اور ملک کا اربوں روپے نقصان ہورہا ہے اور مزید بھی چوری کررہی ہے اور سالوں تک چوری کرتی رہی۔ وزارت پٹرولیم کے سیکرٹری نے کمیٹی کو کہا کہ ایف آئی اے کو یہ کیس وزارت پٹرولیم نے ریفر کیا ہے اور وزارت مکمل تعاون کررہی ہے آئل کی چوری پر ہمیں تشویش ہے۔ ملک کا سرمایہ چوری کیا جارہا ہے قانون کے تقاضے پورے کریں گے اور انکوائری مکمل ہونے کے بعد کارروائی کریں گے۔

اس کی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ملک اعتبار نے کہا کہ ایسی کمپنی کو بلیک لسٹ کیوں نہیں کرتے کمیٹی نے اگلے اجلاس میں اوگرا کے سربراہ‘ مول کمپنی سمیت متعلقہ دیگر ڈیپارٹمنٹ کو وضاحت کے لئے طلب کرلیا کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ آئلاور گیس کا پنجاب کو پیداواری بونس 246.4 ملین دیا گیا ہے‘ بلوچستان کو 51.3 ملین اور سندھ کو 4.1 ارب اور خیبر پختونخوا کو 1.1 ارب پیداواری بونس دیا گیا۔

پنجاب کو آئل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں 2012-13 سے 2015-16 تک 2290 ملین ادا کیا گیا پنجاب میں سوشل ویلفیئر کے لئے 418.4 ملین ٹرانسفر کیا گیا سندھ توانائی بورڈ کے حکام نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ 25 سال کے دوران سندھ کو 336 ارب کی آئل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں ادا کیا گیا تین سال کے دوران 109 ملین ادا کیا گیا جبکہ پیدواری بونس 3992 ملین ادا کیا گیا۔ خیبر پختونخوا حکام نے کہا کہ ٹرینگ فنڈ 25 ہزار ڈالر سے 30ہزار ڈالر ہے ہمیں ادا نہیں کیا جاتا۔