حالات کا تقاضا؛ فیصل آباد میں لڑکا بن کر پانی سپلائی کرنے والی لڑکی اقصی

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین جمعہ 26 اگست 2016 13:14

حالات کا تقاضا؛ فیصل آباد میں لڑکا بن کر پانی سپلائی کرنے والی لڑکی ..

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔26 اگست2016ء) : کہا جاتا ہے کہ بیٹے ہی اپنے والدین کا سہارا ہوتے ہیں لیکن اگر موقع ملے تو بیٹیاں بھی اپنے والدین کا سہارا بننے اور ان کا بوجھ اٹھانے سے نہیں کتراتیں۔ اس کا عملی مظاہرہ فیصل آباد کی رہائشی ایک اقصیٰ نامی لڑکی نے کیا، جو والد کے ٹریفک حادثے میں ایک ٹانگ کھونے کے بعد خود ہی لڑکا بن کر گھروں میں پانی سپلائی کرنے کا کام کرتی ہے۔

14 سالہ اقصیٰ فیصل آباد کے علاقہ سہیل آباد کی رہائشی ہے۔ باپ کے ایکسیڈنٹ کے بعد اقصیٰ نے خود ہی اپنے والی کی ذمہ داری کو اپنے کندھوں پر ڈال لیا۔ جس کے تحت گذشتہ دو سال سے اقصیٰ صبح سویرے اٹھ کر گھر سے چھ کلو میٹر کی دوری پر موٹر سائیکل رکشہ چلا کر نہر کے بعد ایک نل سے پانی بھرتی ہے اور پھر فی کین 15 روپے کے حساب سے لوگوں کے گھروں میں پہنچاتی ہے۔

(جاری ہے)

کین فروخت کرنے کے بعد اقصیٰ اپنی دو بہنوں کے ہمراہ اسکول پڑھنے کے لیے چلی جاتی ہے۔اسکول سے واپسی پر اقصٰی کچھ دیر آرام کرنے اور دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد پھر صبح کی طرح نہر سے پانی بھر کر گھروں میں سپلائی کرنے کے لیے نکل جاتی ہیں۔ اقصیٰ کے والد محمد ندیم کا کہنا ہے کہ شروع میں مجھے یہ پریشانی ستاتی تھی کہ اقصیٰ کے باہر جا کر کام کرنے اور پانی سپلائی کرنے پر لوگ کیا کہیں گے اور یہ کم عمر بچی اتنا سخت کام کیسے کرے گی لیکن پھر میں نے اقصیٰ کو یہ سوچ کر اجازت دے دی کہ اب ہمارے کے پاس باعزت زندگی گزارنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا ۔

انہوں نے بتایا کہ اقصٰی شروع سے ہی میرے ساتھ بہت زیادہ پیار کرتی تھی، اور یہی وجہ تھی کہ اسے مجھے اپنی پریشانی بتانی نہیں پڑی بلکہ اس نے خود سے رکشہ چلانا سیکھا اور اب تو وہ اس کی چھوٹی موٹی خرابی دور کرنے کے علاوہ پنکچر وغیرہ بھی خود ہی لگا لیتی ہے۔ اس حوالے سے اقصٰی کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔

اور اسی لیے خود سے ہی ان کا سہارا بننے کا فیصلہ کیا اور اس کام کے لئے اجازت حاصل کرنے میں اُن کی بڑی بہنوں نے بھی اُن کا ساتھ دیا۔ اقصیٰ کا کہنا ہے کہ مجھے آگے بڑھنے، تعلیم حاصل کرنے، اچھے کپڑے پہننے اور مختلف کھیل کھیلنے کا بہت شوق تھا لیکن آج جتنی خوشی اپنے والد کا سہارا بن کر ہو رہی ہے اتنی شاید کسی اور کام میں نہ ہوتی۔ اقصیٰ نے بتایا کہ میں جہاں سے پانی بھر کر لاتی ہوں وہ سب لوگ میرے والد اور ان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے سے آگاہ ہیں۔

اور اسی لیے وہ سب نہ صرف اس کام میں میری مدد کرتے ہیں بلکہ میرے ساتھ اپنی بیٹیوں جیسا سلوک کرتے ہیں۔ اس نے مزید بتایا کہ جن گھروں میں میں پانی سپلائی کرتی ہوں ان میں سے زیادہ تر کو اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ یہ کام لڑکی کر رہی ہے یا لڑکا۔ انہیں تو صرف وقت پر پانی چاہیے اوریہی وجہ ہے کہ وہ مجھ سے ملازموں کی طرح ہی برتاؤ کرتے ہیں۔ لیکن جہاں ایسے لوگ ہیں وہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو میری محنت کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتے اور عزت دیتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :