سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کا18 ویں آئینی ترمیم پر مکمل عمل درآمد نہ کیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار ، حکومت سے 3 روز میں جواب طلب

بتا یا جائے کہ اب تک کتنے محکمے صوبوں، دوسری وزارتوں کو منتقل ،کتنی نئی وزارتیں بنائی گئیں، کمیٹی کا استفسار ، کون کمیٹی کو جواب دے گا ، اس حوالے سے سینیٹ سے رہنمائی لے کر ایوان میں رپورٹ پیش کی جائے گی،کمیٹی کا فیصلہ، مشترکہ مفادات کو نسل کے مستقل سیکرٹریٹ کے قیام بارے رپورٹ کی منظوری

جمعرات 25 اگست 2016 20:47

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 اگست ۔2016ء ) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی منتقلی اختیارات نے18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقلی اختیارات کے حوالے مکمل عمل درآمد نہ کیے جانے کے حوالے سے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے تین دن میں جواب طلب کر لیا،کمیٹی نے ہدایت کی کہ بتا یا جائے کہ آج تک کتنے محکمے صوبوں کو منتقل کیے گئے،کتنی نئی وزارتیں بنائی گئی اورکتنے محکمے دوسری وزاتوں میں شفٹ کئے گئے،کمیٹی نے فیصلہ کیاکہ کمیٹی کو اس حوالے سے کس کو جوابدہ ہونا چا ہئے اس حوالے سے سینیٹ سے راہنمائی لی جا ئے گی اور ایوان میں رپورٹ پیش کی جائے گی، کمیٹی نے غور کیا کہ 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقلی اختیارات اتھارٹی کا قیام ضروری ہے،کمیٹی نے مشترکہ مفادات کو نسل کے مستقل سیکرٹریٹ کے قیام کے حوالے سے رپورٹ کی منظوری دے دی۔

(جاری ہے)

ء سینیٹ فنکشنل کمیٹی منتقلی اختیارات کے اجلاس میں چیئرمین کمیٹی سینیٹر میر کبیر احمد محمد شاہی 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو منتقلی اختیارات کے حوالے سے کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے اب تک مکمل عمل درآمد نہ کیے جانے کے حوالے سے آگاہی پر سخت برہم ، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم پاکستان کی آئینی تاریخ کا روشن باب ہے لیکن اختیارات کی مکمل منتقلی نہ ہونے کی وجہ سے صوبوں کو ذرا برابر فائدہ نہیں ملا پرانی وزارتیں نئے ناموں سے دوبارہ بنا لی گئی ہیں آئین کی سبز کتاب پر مکمل عمل درآمد چاہتے ہیں کیبنٹ ڈویژن کی بنائی گئی سمری پر وزیراعظم فیصلہ دیتے ہیں کیبنٹ ڈویژن نے ہی نئے ناموں سے وزارتوں کی منظوری لی اور کیبنٹ ڈویژن ہی صوبوں کو منتقلی اختیارات کا عمل مکمل نہیں کر سکا ۔

اور کہا کہ وفاق نے تعلیم ،صحت ، زراعت جیسی انتہائی اہم وزارتوں کے زیادہ فنڈز کے معاملات اپنے پاس اور کچرا صوبوں کے حوالے کیا ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ18 ویں ترمیم کو آئین کا حصہ بن چکی آج پاکستان جس جنجال کا شکار ہے اس کی وجہ آئین پر عملد رآمد نہ ہونا ہے پہلے آئین پر من وعن عمل ہوجاتا تو 18 ویں ترمیم کی ضرورت نہ ہوتی 18 ویں ترمیم کے بعد بھی قومی مفا د میں ترامیم کی جا سکتی ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ چیف سیکرٹریز صوبائی پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہان کو خطوط لکھے گئے۔وزیر مملکت شیخ آفتاب نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤس میں مصروفیت کی وجہ سے اجلاس میں تاخیر سے شریک ہواجس پر معذرت خواہ ہوں ہر اجلاس میں سیکرٹری اور میں خود موجود ہوتا ہوں آئندہ موقع نہیں دیا جائے گا۔سینیٹر تاج حیدر کے ذریعے صرف صوبہ سندھ کی رپورٹ آئی ہے وزارت پیٹرولیم کہہ رہی ہے کہ آئین کے آرٹیکل پر من و عن عمل کر رہے ہیں چاروں صوبوں میں جائیں گے زندگی کے تمام شعبوں سے متعلقہ ماہرین سے مشاورت کی جائے گی 18 ویں ترمیم کے حوالے سے مکمل بریفنگ لیں گے کہ ختم ہونے والی وزارتوں اور منتقل ہونے والے اختیارات کے حوالے سے کس حد تک عمل ہو رہا ہے 31 اگست اوریکم ستمبر کوئٹہ میں 21 اور 22 ستمبرسندھ میں کمیٹی کے اجلاس منعقد کیے جائیں گے ۔

کمیٹی اجلاس میں وزیر مملکت اور سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن کی عدم موجودگی پر ناراضگی کا اظہار کیا گیا چیئرمین کمیٹی نے ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ ڈویژن میر طارق زمان سے وزیر مملکت اور سیکرٹری کو فون کے ذریعے کمیٹی اجلاس میں نہ آنے کیلئے پوچھنے کیلئے بھجوایا ایڈیشنل سیکرٹری نے آگاہ کیا کہ وزیر مملکت اور سیکرٹری وزیراعظم ہاؤس میں اہم اجلاس میں شریک ہیں آھے گھنٹے میں اجلاس میں شریک ہونگے کیبنٹ ڈویژن کی طرف سے آگاہ کیا گیا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اختیارات کی منتقلی کے لئے ایک سال کی مدت پر عمل درآمد کمیشن قائم کیا گیا عمل درآمد کو یقینی بنانا کابینہ ڈویژن کے دائرہ اختیا رمیں نہیں کسی بھی وزارت کو عمل درآمد کیلئے نہیں کہا گیا جس پر کمیٹی اراکین نے سوال اٹھایا کہ جب کوئی ادارہ ہی موجود نہیں تو کمیٹی کس سے پوچھے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ ایڈیشنل سیکرٹری نے پورا سچ بول دیا ہے صوبوں کو اختیارات کی منتقلی نہیں بلکہ بد دیانتی ہوئی بیورو کریسی اختیارات پر قابض رہنا چاہتی ہے ۔

سینیٹر تاج حید رنے کہا کہ 1947 سے ہی اشرفیہ مادر پدر آزاد ہے آج بھی قانون کو پاؤں تلے روند جا رہا ہے کسی طرح یہ بات یقینی بنائی جائے کہ اشرفیہ بھی قانون کے دائرے میں آجائے ۔سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد منتقلی اختیارات بالکل نہیں ہوئے اور سوال اٹھایا کہ 18 ویں ترمیم سے پہلے کتنی وزارتیں تھیں نئے ناموں سے کتنی وزارتیں بنائی گئیں اور کہا کہ ایسی صرف تین وزارتوں کے نام سے آگاہ کر دیا جائے جو مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کر دی گئی ہیں جس پر آگاہ کیا گیا کہ 17 وزارتوں کو 18 ویں ترمیم کے تحت ختم ہونا تھاان کے کچھ حصے صوبوں کے پاس اور کچھ وفاق میں موجود ہیں بین الاقوامی معاہدات کے حوالے سے بھی نیٹ ورک چاہیے اور آگاہ کیا کہ 7 نئی وزارتیں بنائی گئی ہیں ورکرز ویلفیئر ز ، ای او آئی بی ، اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن، بورڈ آف انوسٹمنٹ وفاق نے رکھے ہیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پاکستان انوائر منٹل ایجنسی اور سروے آف پاکستان کو وزارت کیڈ میں رکھناتھا نئی وزارت موسمیاتی تبدیلیوں میں ڈال دیا گیا کمیٹی اجلاس میں ممبران نے سوال اٹھایا کہ عمل درآمد کے حوالے سے کوئی اتھارٹی موجود نہیں کسی سے بھی پوچھا نہیں جا سکتا سینیٹر عطا ء الرحمن نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے وفاق کے یکساں نصاب کیلئے جے یو آئی نے وفاقی وزارت کی تجویز دی تھی چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ڈیڑھ سال میں ابھی تک یہ طے نہیں کہ ذمہ دار کون ہے کمیٹی کس سے پوچھ سکتی ہے عمل درآمد کے معاملات 2010 میں ہی طے ہوجانے چاہیے تھے ۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کارنامہ تھا انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں بہتری کی گنجائش قائم رہتی ہے صحت اور تعلیم کے حوالے سے ق لیگ کا اختلافی نوٹ موجود ہے اور کہا کہ متروکہ وقف املاک کو وفاق میں رکھنا بیورو کریسی کی وسائل پر قابض رہنے کی سوچی سمجھی سازش ہے کمیٹی اجلاس میں عملدآمد اتھارٹی کے قیام کی سفارش کی گئی ۔سینیٹر عثمان خان کاکٹر نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد وزارتیں زیادہ ہو گئی ہیں ۔

سینیٹر سردار یعقوب ناصر نے کہا کہ صوبوں کو بھی مشاور ت میں شامل کیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ کیبنٹ ڈویژن تحریری طور پرتین دن میں بتائے کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے وزارتوں کی صوبوں کو منتقلی ان کے اختیا ر میں نہیں اور یہ بھی بتایا جائے اگر اختیار ان کا نہیں تو پھر کس کا اس کے بعد کمیٹی چیئرمین سے رجوع کرے گی کہ اب کیا کیا جائے۔کمیٹی اجلاس میں سوال اٹھایا گیا کہ ایسے فورم سے آگاہ کیا جائے جس سے جواب لیں سکیں ہاؤس کیلئے رپورٹ پیش کرسکیں کون جوابدہ ہے ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ مکمل اور تفصیلی جواب کیلئے رپورٹ ایوان میں پیش کی جائے تاکہ حکومت جواب کی پابندہ ہو ۔ سینیٹر عطاء الرحمن نے تجویز دی کہ چیئرمین کمیٹی اور سینیٹر تاج حیدر چیئرمین سینیٹ میاں رضاربانی سے مشاورت کرے ۔سینیٹر نوابزادہ سیف اﷲ مگسی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کا مقصد صوبوں کو خود مختار بنانا تھا لیکن سوچ یہ ہے کہ اسلام آباد طاقتور ہوگا تو پاکستان طاقتور ہو گا۔

واپڈا اور پلاننگ کمیشن کے ساتھ نو لانگ ڈیم کے حوالے سے رابطے میں ہوں کہا جارہا ہے کہ پانی صوبائی مسئلہ ہے ڈیم خود بنائیں اور کہا کہ صوبہ بلوچستان میں پچھلے پانچ سال کی کار کردگی یہ ہے کہ غیر ترقیاتی بجٹ بڑھ گیا ہے 15 ارب کی گرانٹ بلو چستان میں استعمال نہ ہونے کی وجہ سے واپس ہو گئی ہے ملک کو 18 فیصد گیس دیتے ہیں پنجاب سے گیس مہنگی نکلتی ہے اور بلوچستان کے ساتھ معاہدہ پرانے ریٹ پر ہے ۔کمیٹی کے آج کے اجلا س میں سینیٹرز نوابزادہ سیف اﷲ مگسی ، تاج حیدر، کامل علی آغا، عطاء الرحمن، لیاقت خان ترکئی، سردار یقوب ناصر، عثمان خان کاکٹر ، وزیر مملکت شیخ آفتاب ، ایڈیشنل سیکرٹری کیبنٹ میر طارق زمان، ڈاکٹر ارم خان کے علاوہ اعلیٰ افسران نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :