افتخار چوہدری نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے سانحہ کوئٹہ پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کردیا

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سانحہ کوئٹہ کے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، شہداء کے لواحقین کی امداد کے نام پر بھی ڈھونگ رچایا گیا، لواحقین کو فوری طور پر رہنے کیلئے گھر،ماہانہ وظیفے اور انکے بچوں کو روزگار دینے کا اعلان کیا جائے،اگر بروقت طبی امداد دی جاتی تو 20 سے 30 زخمیوں کو بچایا جاسکتا تھا، غفلت برتنے والے سول ہسپتال کے ڈاکٹرز ، عملے اورچیف سیکرٹری بلوچستان کے خلاف کاروائی کی جائے پاکستان جسٹس ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ کا پریس کانفرنس سے خطا ب

جمعرات 25 اگست 2016 19:44

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 اگست ۔2016ء) پاکستان جسٹس ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چوہدری نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے سانحہ کوئٹہ پر ازخود نوٹس لینے اورغفلت کے مرتکب افراد کے خلاف کاروائی کیلئے ہدایات جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے سانحہ کوئٹہ کے مجرموں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی، شہداء کے لواحقین کی امداد کے نام پر بھی ڈھونگ رچایا گیا، لواحقین کو فوری طور پر رہنے کیلئے گھر،ماہانہ وظیفے اور انکے بچوں کو روزگار دینے کا اعلان کیا جائے،اگر بروقت طبعی امداد دی جاتی تو 20 سے 30 زخمیوں کو بچایا جاسکتا تھا، غفلت برتنے والے سول ہسپتال کے ڈاکٹرز ، عملے اورچیف سیکرٹری بلوچستان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

(جاری ہے)

وہ جمعرات کو یہاں پریس کانفرنس سے خطا ب کر رہے تھے، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ کا اندوہناک سانحہ بلوچستان کی تاریخ پر سیاہ دھبہ رہے گا، سول ہسپتال کوئٹہ میں دہشت گردوں کو روکنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے تھے، خودکش بمبار نے ہسپتال میں سیکورٹی کا کوئی انتظام نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دھماکہ کر دیا جس کے نتیجے میں 65 وکلاء سمیت74 لوگ شہید اور 150 زخمی ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے جب یہ دہشت گرد حملہ کرتے ہیں تو ہمارے سیکورٹی اداروں کو کوئی اطلاع نہیں ملتی، یہ کہنا بالکل غلط ہے ہ بلوچستان کے حالات بالکل ٹھیک ہوگئے ہیں ، ہم اس تاثر کورد کرتے ہیں،اسلام آباد اور کراچی کی طرح کوئٹہ میں بھی کوئی سیف سٹی پروجیکٹ جیسا منصوبہ لایا گیا ہوتا تو دہشت گردی کے واقعات کو روکنے میں مدد ملتی۔ انہو ں نے کہا کہ اگر سول ہسپتال کے ارد گرد حفاظتی حصار بنا کر سیل کیا جاتا تو یہ واقعہ رونما نہ ہوتا،یہ غفلت ہماری ایجنسیوں ، انٹیلیجنس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بیپایاں ناکامی اور نیشنل ایکشن پلان کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، خود کش دھماکے بعد سول ہسپتال کے تمام ڈاکٹرز اور عملہ بھاگ کھڑا ہوا صرف ایک خاتون ڈاکٹر نے ہمت سے کام لیا، اگر زخمیوں کو بروقت طبعی امداد دی جاتی تو 25 سے 30 جانیں بچ سکتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی طرف سے شہید وکلاء کے اہل خانہ کیلئے ایک سے دو کروڑ روپے امداد کا اعلان کیا گیا تھا لیکن کسی کو ایک روپیہ نہیں دیا گیا، ہمارا مطالبہ ہے کہ شہداء کے لواحقین کو رہنے کیلئے گھر، ماہانہ وظیفہ اور ان کے بچوں کو نوکری دی جائے، سانحہ کوئٹہ کے بعد وفاقی اور صوبائی حکوت نے نہ کسی کے خلاف کاروائی کی اور نہ کسی کو غفلت کا مرتکب ٹھہرایا،حکومت سے مطالبہ ہے کہ سانحہ کوئٹہ کے مجرموں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کو مراسلہ بھجوایا ہے ان سے گزارش کی ہے کہ سانحہ کوئٹہ کا ازخود نوٹس لیں اور آرٹیکل 184/3 کے تحت اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے بلوچستان کے شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور نفاذ کیلئے بالخصوص سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے ضروری اعلامیہ اور ہدایات جاری کریں۔