سپریم کورٹ کاکراچی میں پانی کی مساوی تقسیم کا کوئی مناسب نظام نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار

ہائیڈرنٹس کے حوالے سے عدالت عالیہ میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں

جمعرات 25 اگست 2016 15:02

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 اگست ۔2016ء) سپریم کورٹ نے کراچی میں پانی کی مساوی تقسیم کا کوئی مناسب نظام نہ ہونے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہائیڈرنٹس کے حوالے سے عدالت عالیہ میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں‘ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سارے کراچی کو وال مینز کے سہارے چھوڑدیا گیا ہے جس سے پانی کی فراہمی کا نظام تباہ ہو گیا ہے‘ کراچی میں پانی کی مساوی تقسیم کا کوئی نظام نہیں‘ والو مین اپنی مرضی سے علاقوں کو پانی فراہم کرتے ہیں جبکہ واٹر بورڈ ،مافیاز کی سرپرستی کرتا ہے‘ ہم نل کا پانی پی کر بڑے ہوگئے ، اب غریب آدمی بھی منرل واٹر خریدنے پر مجبور ہے۔

شہری پانی کیلئے ترس رہے ہیں، انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

پانی کی منصفانہ فراہمی تقسیم کیلئے میٹرز لگ جاتے تو 80 فیصد مسئلہ حل ہوجاتا۔ جمعرات کو جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے غیر قانونی ہائیڈرینٹس کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہر سے غیرقانونی ہائیڈرینٹس ختم کردیئے گئے ہیں اور اس وقت صرف تیرہ ہائیڈرنٹس کام کررہے ہیں۔دوران سماعت جسٹس امیر ہانی مسلم نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی رپورٹ غلط ہوئی تو براہ راست ایکشن لیں گے۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ واٹر بورڈ مافیاز کی سرپرستی کرتا ہے، انجینئرز اور دوسرے عملے کو بھی حصہ جاتا ہے۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ شہر میں کتنے واٹر ٹینکرز موجود ہیں۔اس پر ایم ڈی نے بتایا کہ کراچی میں دس ہزار واٹر ٹینکرز کام کررہے ہیں۔عدالت نے کہا کہ تیرہ ہائیڈرنٹس سے دس ہزار ٹینکرز کوپانی نہیں مل سکتا۔ ہائیڈرنٹس اس سے زیادہ ہیں۔عدالت نے کہا کہ سیشن ججوں سے معائنہ کرائیں گے ، آپ کی رپورٹ غلط ہوئی تو براہ راست ایکشن لیں گے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ کا کہنا تھا کہ ہائیڈرنٹس کے خاتمے سے مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ ہاں مثبت یہ کہ ایک ہزار روپے کا ٹینکر ڈھائی ہزار روپے کا ہوگیا۔جسٹس خلجی عارف حسین نے بھی دوران سماعت اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہم نل کا پانی پی کر بڑے ہوگئے ، اب غریب آدمی بھی منرل واٹر خریدنے پر مجبور ہے۔ شہری پانی کیلئے ترس رہے ہیں، انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔

پانی کی منصفانہ فراہمی تقسیم کیلئے میٹرز لگ جاتے تو 80 فیصد مسئلہ حل ہوجاتا۔ایم ڈی نے جواب دیا کہ بیس میٹرز لگادیئے گئے، 121میٹرز لگنا باقی ہیں لیکن عدالت نے کہا کہ کراچی میں ہانی کی قلت بد انتظامی کے سوا کچھ نہیں۔ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کو 550 ملین گیلن پانی ملتا ہے تاہم جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ اس طرح ایک شہری کو اٹھارہ گیلن پانی ملنا چاہیے جو اس کے لیے کافی ہے۔نظام نہیں چلا سکتے تو ٹھیکے پر دے دیں ، سب صحیح ہوجائے گا۔سپریم کورٹ نے ہائیڈرنٹس کے حوالے سے عدالت عالیہ میں زیر التوا مقدمات کی تفصیلات طلب کرلیں۔مقدمات میں واٹر بورڈ نے جو بیانات دیئے اس کی بھی تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں پیش کرنے کے احکامات دیئے گئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :