توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کا سلسلہ جاری ، ٹھوس انتظامی حکمت عملی اور کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہو گیا ، پیداوار میں نمایاں اضافہ ، 2018ء تک 10ہزار 4سو میگا واٹ کے منصوبے مکمل ہو جائیں گے

جمعرات 25 اگست 2016 14:58

اسلام آباد ۔ 25 اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔25 اگست۔2016ء) ملک میں توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے موجودہ حکومت کی جانب سے جامع حکمت عملی کے تحت اقدامات کا سلسلہ جاری ہیں ، اس سلسلے میں مختلف قلیل، درمیانی اور طویل مدت کے منصوبوں پر عمل کیا جا رہا ہے ، ٹھوس انتظامی حکمت عملی اور کامیاب پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم ہو گیا ہے بلکہ بجلی کی پیداوار میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں 2018ء تک 10ہزار 4سو میگا واٹ کے منصوبے مکمل ہو جائیں گے ۔

جمعرات کو وزارت منصوبہ بندی و ترقیات کے حکام نے اے پی پی کو بتایا کہ وزیر اعظم محمد نوازشریف خود توانائی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاسوں کی باقاعدگی سے صدارت کرتے ہیں اور توانائی کے منصوبوں کے بارے میں معلومات حاصل کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

گزشتہ ایک سال کے دوران سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے ذریعے ملک کی ترقی اور معیشت کے استحکام کو اولین ترجیحات میں رکھا گیاہے، چین کی معاونت سے آئندہ آٹھ سے دس سال میں 21 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔

داسو ڈیم سے 4220، دیامر بھاشا ڈیم سے 4500 میگاواٹ، نیلم ۔ جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے 969 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس کے علاوہ ایل این جی کی درآمد سے بھی 3600 میگاواٹ بجلی حاصل کی جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت آبپاشی کے مقاصد کے لئے دیامر بھاشا ڈیم بڑا منصوبہ ہے، تربیلا IV توسیعی منصوبے، اوچ II- پاور پراجیکٹ، گدو پاور اسٹیشن کی استعداد بڑھانے اور گڈانی پاور پراجیکٹ جیسے منصوبوں کی تکمیل سے ملک سے توانائی کے بحران کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت 404 میگاواٹ کے اوچ II- پاور پراجیکٹ، 747 میگاواٹ کے گدو پاور پلانٹ، 1320 میگاواٹ کے پورٹ قاسم کول پاور پراجیکٹ، 6 ہزار میگاواٹ کے تھرکول پاور پراجیکٹ، 1320 میگاواٹ کے ساہیوال کول پاور پراجیکٹ، 1410 میگاواٹ کے تربیلا IV توسیعی منصوبے، 3 ہزار میگاواٹ کے قائداعظم سولر پاور اور ونڈ پاور پراجیکٹس کے علاوہ نئے منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔

اسی طرح چشمہ یونٹ I-، چشمہ یونٹ III-، سی III- اور سی IV- ، 340 میگاواٹ کے منصوبے بھی زیر تکمیل ہیں۔ منگلا ہائیڈل پاور اسٹیشن کی اپ گریڈیشن سے اس کی پیداوار ایک ہزار میگاواٹ سے بڑھ کر 1310 میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت رواں سال بجلی کی پیداوار میں اضافے کے لئے سندھ میں توانائی کے مختلف منصوبوں پر 16 ارب روپے خرچ کرے گی جن میں کوئلہ، شمسی اور ہوا سے بجلی کے پیداوار کے منصوبے شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ وفاقی حکومت کے تعاون سے 2020ء تک تھر کے کوئلہ کے ذخائر سے 10 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ توانائی کے منصوبوں میں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے 2018ء تک قومی گرڈ میں 16564 میگاواٹ بجلی شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ تربیلا IV توسیعی منصوبہ سے 2017ء تک اضافی بجلی حاصل ہونا شروع ہو جائے گی۔

گدو، نندی پور اور قائداعظم سولر پارک کے منصوبے رواں سال پیداوار شروع کر دیں گے۔انہوں نے بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت جو منصوبے2016میں اپنی پیداوار شروع کریں گے ان میں چینی کمپنی زونرجی کا بہاولپور کے قریب900میگاواٹ کاسولر پاور منصوبہ بھی شامل ہے۔اس کے علاوہ یوای پی ونڈ پاور کا سندھ میں 100 میگاواٹ کا منصوبہ ، سچل اور ہائیڈرو چائنا کمپنیز کے سندھ میں پچاس پچاس میگاواٹ کے 2 ونڈ پاور منصوبے بھی ہیں۔

حکام کے مطابق اس کے علاوہ حکومت نے 969میگاواٹ کے نیلم جہلم پن بجلی منصوبے کی بجلی 2016ہی میں نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ساہیوال میں کوئلے سے 660 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے 2 منصوبے لگائے جا رہے ہیں ، ساہیوال کول پاور پراجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2017 میں اس منصوبے سے بجلی کی پیداوار کا آغاز ہو جائے گا۔حکومت کے پروگرام کے تحت جون 2018ء تک بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 31ہزار 19میگا واٹ ہو جائے گی۔