وزیراعظم محمد نواز شریف کو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ کو عام کیا جائے گا تاکہ اس پر مزید بحث اور تبادلہ خیال کے بعد ان سفارشات پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے، وزیراعظم ہاؤس کا بیان

بدھ 24 اگست 2016 23:13

اسلام آباد ۔ 24 اگست (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔24 اگست ۔2016ء) وزیراعظم محمد نواز شریف کو فاٹا اصلاحات کمیٹی کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ کو عام کیا جائے گا تاکہ اس پر مزید بحث اور تبادلہ خیال کے بعد ان سفارشات پر قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ وزیراعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق فاٹا میں اصلاحات سے متعلق رپورٹ پر بدھ کو نیشنل ایکشن پلان (نیپ) پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کیلئے منعقد ہونے والے اجلاس میں تبادلہ خیال کیا گیا۔

”اے پی پی“ کو دستیاب تفصیلات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں پانچ رکنی فاٹا اصلاحات کمیٹی نے وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ فاٹا کے ارکان پارلیمان، قبائلی عمائدین اور تمام فریقین کے ساتھ ملاقاتوں کے بعد اصلاحات کیلئے چار بنیادی آپشنز کی سفارش کی ہے لیکن فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام پر وسیع اتفاق رائے ہے، ان چار آپشنز میں سے ایک یہ ہے کہ موجودہ صورتحال کو برقرار رکھا جائے لیکن عدالتی اور انتظامی اصلاحات متعارف کرائی جائیں اور ترقیاتی سرگرمیوں پر توجہ بڑھائی جائے۔

(جاری ہے)

دوسرا آپشن یہ ہے کہ گلگت بلتستان کی طرز پر فاٹا کونسل تشکیل دی جائے، تیسرا آپشن یہ ہے کہ فاٹا کا ایک الگ صوبہ بنایا جائے، چوتھا آپشن یہ ہے کہ فاٹا کو خیبرپختونخوا کے ساتھ اس طرح ملا دیا جائے کہ ہر ایجنسی ایک الگ ضلع ہو اور ایف آرز اینٹیگریٹڈ ہوں۔ کمیٹی کی طرف سے کی گئی وسیع تر مشاورت سے یہ بات سامنے آئی کہ فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام پر وسیع اتفاق رائے تاہم کرم باجوڑ اور ایف آر پشاور کے سوا قبائلی عمائدین موجودہ خصوصی حیثیت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ سیاسی جماعتوں، نوجوانوں، کاروباری اور پڑھا لکھا طبقہ واضح طور پر فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کا حامی ہے اور انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں رٹ کے حوالہ سے بھی دلائل دیئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قبائلی عوام اس کے ساتھ ہی نئے نظام کے تحت رواج اور جرگہ سسٹم کو تسلیم کرنے کے ذریعے اپنی شناخت برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے فاٹا اصلاحات کیلئے مرحلہ وار اپروچ اختیار کرنے کیلئے دلائل دیئے تاکہ نقل مکانی کرنے والے افراد اپنے گھروں کو لوٹ سکیں اور علاقہ میں جنگ کی صورتحال کے بعد پائیدار امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ جغرافیائی محل وقوع، ایجنسیوں کے درمیان کمزور مواصلاتی رابطوں اور محدود مالی وسائل کے باعث فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حوالہ سے حمایت موجود نہیں ہے۔

اسی طرح گلگلت بلتستان کونسل کی طرز پر فاٹا کونسل کی تجویز کو بھی زیادہ حمایت حاصل نہیں۔ اس امر پر زور دیا گیا کہ ایک ٹرانزیشنل اقدام کے طور پر بھی اس سے نئے مخصوص مفادات پیدا ہوں گے جن سے مزید اصلاحات کا عمل رک سکتا ہے۔ چوتھے آپشن یعنی فاٹا کے خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کے حوالہ سے وسیع تر حمایت سامنے آئی کیونکہ اس تجویز پر عمل سے بہت سے فائدے ہو سکتے ہیں اور یہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے حوالہ سے واحد معقول انتخاب ہے کیونکہ اس طرح فاٹا کے عوام خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں اپنے نمائندے خود منتخب کرنے کے قابل ہوں گے۔

اس آپشن کے تحت سیکورٹی انفراسٹرکچر بشمول لیویز اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط اور ان کا معیار بہتر کرنے پر توجہ دینا ہوگی اور پورے فاٹا تک اس کا دائرہ وسیع کرنا ہو گا۔ اس طرح مسلح افواج کو فاٹا میں سیکورٹی کیلئے اپنا کردار چار سے پانچ سالوں کے اندر ختم کرنے میں آسانی ہو گی۔ رپورٹ کے مطابق علاقہ میں امن کے بعد قبائلی عوام کی بحالی، جنگی بنیادوں پر قبائلی علاقوں کی تعمیرنو اور روزمرہ سرگرمیوں کی بحالی سب سے زیادہ قابل ترجیح ہونی چاہئے۔

2016ء کے آخر تک نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی ہونی چاہئے جبکہ 2018ء کے آخر سے پہلے تعمیرنو کا مرحلہ مکمل ہونا چاہئے، اس کیلئے بہت زیادہ مالی وسائل اور سیفران، فاٹا سیکرٹریٹ، آرمی فارمیشنز اور ایف ڈبلیو او/این ایل سی سمیت تمام وفاقی اداروں کے مابین روابط کی ضرورت ہے۔ فاٹا سیکرٹریٹ نے ایک جامع بحالی اور تعمیرنو کا پروگرام شروع کیا ہے، اس منصوبہ کیلئے مالی وسائل کے سلسلہ میں غیر ملکی ڈونرز کو دعوت دی جا سکتی ہے، 10 سالہ ترقیاتی پروگرام میں انفراسٹرکچر اور آبپاشی کے منصوبے، معدنیات کی ترقی کا پروگرام اور تعلیم، صحت سمیت یونیورسٹی، میڈیکل اور انجینئرنگ کالجز، فنی تربیت کی فراہمی اور انڈسٹریل زون جیسے منصوبے شامل کرنے چاہئیں، 10 سالہ پروگرام کا بنیادی مقصد فاٹا کو پاکستان کے دوسرے علاقوں کے برابر لانا ہے۔

فاٹا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں پر عمل کیلئے 10 سالہ منصوبہ کے تحت مزید اختیارات دیئے جا سکتے ہیں، 10 سالہ منصوبہ میں لوکل باڈیز کے ذریعے 30 فیصد فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ فاٹا میں تمام پوسٹوں کو خیبرپختونخوا کے برابر اپ گریڈ کیا جانا چاہئے، فاٹا میں منصوبوں پر کام کرنے والے افراد کی تنخواہیں 20 فیصد زیادہ ہونی چاہئیں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں خصوصی مراعات دی جانی چاہئیں اور مفت زمین فراہم کرنی چاہئے۔

فاٹا میں مزید بینکوں کے قیام کیلئے سٹیٹ بینک کو اقدامات کرنے چاہئیں۔ پرائیویٹ بینکوں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے، انضمام کے 10 سال بعد تک تعلیم اور صحت کے اداروں میں فاٹا کے طلباء کا کوٹہ دوگنا کیا جانا چاہئے۔ بحالی کے مرحلہ کے مکمل ہونے کے بعد فاٹا میں 2017ء کے آخر سے پہلے جماعتی بنیادوں پر مقامی حکومتوں کے انتخابات کرائے جا سکتے ہیں، اس کیلئے فاٹا لوکل گورنمنٹ ریگولیشن کے نفاذ کی ضرورت ہو گی جو کہ تین ماہ کے اندر بنانا چاہئے۔

انتخابی فہرستوں کو اپ گریڈ کرنے، حلقہ بندیوں کو حتمی شکل دینے سمیت تمام دیگر معاملات 2017ء کی پہلی سہ ماہی میں مکمل کئے جا سکتے ہیں۔ الیکشن کمیشن آفس پشاور میں اس مقصد کیلئے فاٹا کا ایک الگ یونٹ قائم کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ان اصلاحات کی کامیابی ادارہ جاتی استعداد میں اضافہ اور مطلوبہ افرادی قوت کی فراہمی پر منحصر ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ امر اہمیت کا حامل ہے کہ پولیٹیکل ایجنٹ کا ادارہ اصلاحات کے عمل کا محور ہے اس لئے اسے برقرار رہنا چاہئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیٹی کی طرف سے سفارش کی گئی اصلاحات پر موٴثر اور بروقت عملدرآمد کو یقینی بنانے کیلئے عملدرآمد کا ایک بہتر میکنزم ضروری ہے، اس حوالہ سے کابینہ سطح کی کمیٹی ہونی چاہئے اور اصلاحات کے ہر حصہ کیلئے مخصوص یونٹس کے ساتھ اصلاحات اور ٹرانزیشن کا خصوصی ڈائریکٹوریٹ ہونا چاہئے۔

رپورٹ حتمی طور پر پیش کئے جانے کے بعد اسے عام کیا جائے گا تاکہ میڈیا میں ان سفارشات پر بحث ہو سکے۔ کمیٹی کے چیئرمین فاٹا سے 19 ارکان پارلیمان کا اتفاق رائے حاصل کریں گے جبکہ کمیٹی کے چیئرمین، چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کے ساتھ بھی اس حوالہ سے تبادلہ خیال کریں گے تاکہ ان سفارشات پر پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی آراء آ سکے۔