اٹک دو مذہبی گروپوں کے درمیان جاری تنازعہ ڈی سی او کی فہم وفراست سے طویل مذاکرات کے بعد حل ہو گیا

بدھ 24 اگست 2016 12:18

اٹک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔24 اگست۔2016ء) لنگر تحصیل جنڈ کی مسجد قباء کا چار سال سے دو مذہبی گروپوں کے درمیان جاری تنازعہ ڈی سی او اٹک کی تدبراور فہم وفراست سے طویل مذاکرات کے بعد حل ہو گیا دونوں گروپ اس بات پر راضی اور متفق ہو گئے کہ چونکہ مسجد جس مسلک نے بنائی ہے لہذا رجسٹریشن انہی کے نام سے ہونی چاہیے تفصیلات کے مطابق بھال گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایک مذہنی شخصیت نور زمان نے لنگر تحصیل جنڈ کے مقام پر جگہ خرید کر مکان بنائے اور کچھ عرصہ بعد ان مکان میں سے ایک مکان کا محراب نکال کر اس کو مسجد کا نام دے دیا جس پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا کہ اس بات کو کیوں مخفی رکھا گیا کہ پہلے مکان بنائے گئے اور بعد میں اسکومسجد کانام دیا گیا اس کے پیچھے کوئی اور مقاصد کار فرما ہیں جس پر لنگر گاؤں کے لوگوں نے انتظامیہ کے ساتھ اس معاملہ کو اٹھایا اور اسے دہشت گردی کے نام سے تعبیر کیا گیا جس پر انتظامیہ نے امن وامان کے پیش نظر مسجد قباء کو بند کر دیا اور اس کی رجسٹریشن روک دی اس معاملہ کو پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا جس پر ڈی سی او اٹک رانا اکبر حیات نے ذاتی دلچسپی لیکر دونوں پارٹیوں کے نمائندہ افراد کو اپنے دفتر کے کانفرنس روم میں بلایا ایک مسلک کی نمائندگی پیر آف چورا شریف پیر سعادت شاہ اور دوسرے مسلک کی نمائندگی مولانا عبدالرحمن نے کی دونوں نے اپنی اپنی جانب سے دلائل دئیے ڈی سی او نے چار گھنٹے طویل مذاکرات کے بعددونوں پارٹیوں کو اس بات پر راضی کر لیا کہ چونکہ مسجد(جس طرح بھی بنائی گئی) بن گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ نورزمان نے غیر اخلاقی کام کیا ہے اگر مسجد بنانا چاہتے تھے تو اس بات کو مخفی رکھنے کی کیا ضرورت تھی لہذا اب دونوں نمائندہ افراد بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملہ کو حل کرنے میں میری مدد کریں طویل مذاکرات کے بعد طے پایا کہ چونکہ مسجدجس مسلک نے بنائی ہے اب رجسٹریشن بھی اسی مسلک کے نام کے ساتھ ہونی چاہیے جس پر دونوں مذہنی گروپ اتفاق کر گئے ڈی سی او رانا اکبر حیات نے اپنے خطاب میں کہا کہ نظریہ پاکستان میں بھی ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلافات تھے لیکن ہم نے جس مقصد کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا ہم اپنے آباؤاجداد کے اسلاف اور امن و آتشی کا سبق جو ہماری اولین ترجیح ہوناچاہیے تھابھول چکے ہیں ہم مسلمان ہونے کے ناطے عملی نمونہ ہونے کی بجائے بستی کا شکار ہیں انھوں نے کہا کہ پاکستان بناتے وقت ٹرین میں لاشیں لانے اور قربانیوں دینے کا کوئی فائدہ نہیں کہ آج ہم فرقہ واریت کا شکار ہو گئے ہیں کیاٹرین میں لاشیں لانے کا مقاصد یہ تھے کہ آج ہم کا پاکستان کا یہ حشر کریں گے یہود ونصار یہی چاہتا ہے کہ ہم فرقوں میں تقسیم ہو جائیں تاکہ وہ آسانی کے ساتھ اپنے ہدف کو پورا کر سکے ہمیں بطور مسلمان ہونے کے ساتھ ہوش کے ناخن لینے چاہیے انھوں نے کہا کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے ہمیں باہم متحد ہو اپنے دشمن کا مقابلہ کرنا چاہیے نہ کہ خود ہی ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریبان ہو جائیں یہ قطعی طور پر مناسب نہیں ہم اپنے اختلافات بالائے طاق رکھکر آگے بڑھنا ہو گا انھوں نے کہا کہ آج ہماری مساجد کے باہر نماز کے وقت پولیس کا جوان پیرا دیتا ہے کیا یہی اسلام نے ہمیں یہ درس دیا ہے ہم اپنے راستے سے بھٹک گئے ہیں ہم مل بیٹھ کر اپنے ملک کو دہشت گردی سے نجات دلانی چاہیے انھوں نے کہا کہ امن کے کام کو آگے بڑھانا میری اولین ترجیح ہے اور میں اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاہوں گا۔

متعلقہ عنوان :