سرکاری افسران اور کمیونٹی کے درمیان رابطے کے تناظر میں بد عنوانی کی روک تھام کیلئے ای گورننس اہم قدم ہے ٗ چیئر مین نیب

نیب نے شکایات کی جانچ پڑتال ، انکوائری اور انویسٹی گیشن کیلئے جامع طریقہ کاروضع کیا ہے ٗقمر زمان چوہدری کا خطاب

پیر 22 اگست 2016 20:54

اسلام آباد/ویانا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔22 اگست ۔2016ء) چیئرمین نیب قمر زمان چوہدری نے کہاہے کہ سرکاری افسران اور کمیونٹی کے درمیان رابطے کے تناظر میں بد عنوانی کی روک تھام کیلئے ای گورننس اہم قدم ہے۔ آسٹریا کے شہر ویانا میں بدعنوانی کے تدارک کے عنوان سے اقوام متحدہ کی انسداد بد عنوانی کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بد عنوانی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

بد عنوانی سے نہ صرف ملکی ترقی متاثر ہوتی ہے بلکہ لوگوں کو ان کے جائز حقوق بھی نہیں ملتے۔نیب کو پاکستان میں انسداد بد عنوانی کے اعلیٰ ادارہ کے طور پر قائم کیا گیا جو کہ قانون پر عملدرآمد، آگاہی اور تدارک کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بد عنوانی کے خاتمے کی ذمہ داری نبھا رہاہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہاکہ اچھے نظم و نسق اور بد عنوانی سے بچاؤ کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم کی ہے۔

یہ وزارت ملک میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن پروگراموں کی منصوبہ بندی اور رابطے کے حوالے سے فیصلے کرتی ہے ۔اس وزارت کے پاس انتظامی کنٹرول کے تحت 8ریگولیٹری اتھارٹیاں اور ادارے کام کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ سرکاری افسران اور کمیونٹی کے درمیان رابطے کے تناظر میں بد عنوانی کی روک تھام کیلئے ای گورننس اہم قدم ہے جس سے فیصلہ سازی کو قابل احتساب بنایا جاسکتاہے۔

انہوں نے کہاکہ نیب میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پرمبنی مانیٹرنگ اینڈ ایلیویشن سسٹم (ایم ای ایس) وضع کیا گیاہے جس کے تحت شکایت کی جانچ پڑتال انکوائری ، انویسٹیگیشن اور ریفرنس دائر کرنے کے عمل کو خود کارطریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچایاجاسکتاہے۔ اس حوالے سے ایساسافٹ ویئر تیار کیا گیا ہے جس سے اعلیٰ افسران فیلڈ افسران کی کارکردگی کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

ان کوششوں کا بین الاقوامی برادری نے بھی اعتراف کیا ہے اور پاکستان کے آئی سی ٹی میں عالمی رینکنگ میں گزشتہ چند سالوں میں بہتری آئی ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی 2015ء میں شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق 2013ء میں پاکستان 105ویں نمبر پر ، 2014ء میں 111ویں اور 2015ء میں 97نمبر پر رہا۔ چیئرمین نیب نے کہاکہ حکومت نے بدعنوانی کی لعنت پر قابو پانے کیلئے آئی سی ٹی کی مد د سے بچاؤ کے اقدامات کئے اور سرکاری اداروں میں بھرتیوں اور خریداری کے عمل میں بد عنوانی کے امکانات کم سے کم کرنے اور شفافیت لانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کا نظام متعارف کروایاہے۔

نیب، ضلعی انتظامیہ ،ریگولیٹری اتھارٹیز اور پولیس سمیت حکومت کے اہم اداروں میں آئی سی ٹی کا نظام وضع کرنا اہم ہے ۔ اس سے شفافیت اور میرٹ میں مدد ملی ہے ۔ چیئرمین نیب نے کہا کہ نیب شکایات پر کارروائی کرتاہے جسے بد عنوانی کے خاتمے اور بد عنوان عناصر سے لوٹی گئی رقم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کی ذمہ دار ی سونپی گئی ہے ۔نیب نے شکایات کی جانچ پڑتال ، انکوائری اور انویسٹی گیشن کیلئے جامع طریقہ کاروضع کیا ہے ۔

نیب کے تفتیشی افسران ثبوت کی بناء پر قانون کے مطابق زیرو ٹالرنس کی پالیسی اور قواعد وضوابط پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ 2014ء نیب میں اصلاحات کاسال تھا ۔ نیب نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا طریقہ کار وضع کیا جس کے تحت کوئی بھی فرد مقدمات کو نمٹانے کیلئے اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں 2تفتیشی آفیسر اور ایک قانونی ماہر شامل ہوتے ہیں جو کہ آزادانہ ،شفاف ، غیر متعصبانہ انکوائری/انویسٹی گیشن کرتے ہیں جس کے مثبت نتائج آناشروع ہوگئے ہیں ۔

انہوں نے کہاکہ نیب نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 277.909ملین روپے وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کروائے ہیں۔ نیب کو 321318 شکایات وصول ہوئیں جن کوقانون کے مطابق نمٹایاگیا۔ نیب نے 7124انکوائریوں اور3616انویسٹی گیشن کی منظوری دی جبکہ متعلقہ احستاب عدالتوں میں 2610بد عنوانی کے ریفرنس فائل کئے گئے ۔ان 16سال کے دوران نیب کی کارکردگی کسی بھی دوسرے انویسٹی گیشن ادارے سے زیادہ شانداررہی ہے اس وجہ سے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں 2014ء میں پاکستان کا نمبر 175ویں سے 126اور 2015ء میں 126ویں سے 117پر آگیااور یہ نیب کی انسداد بد عنوانی کی مؤثر حکمت عملی کی وجہ سے ممکن ہواہے۔

متعلقہ عنوان :