سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات کی پیمراکو بغیر ایڈیٹوریل کمیٹی چلنے والے نجی ٹی وی چینلز کیخلاف سخت کارروائی کی ہدایت

کمیٹی نے اینکر شاہد مسعود کے پروگرام پر پابندی لگانے پر سخت برہمی کا اظہار اینکرکے پروگرام پر سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد کارروائی کی گئی ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغواء کے بعد شاہد مسعود نے کچھ ایسی باتیں کیں جو بادی النظر میں کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی تھیں، چیئرمین پیمر اکی بریفنگ

پیر 22 اگست 2016 19:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22 اگست ۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی اطلاعات و نشریات نے الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا )کو ہدایت کی ہے کہ بغیر ایڈیٹوریل کمیٹی چلنے والے پرائیویٹ ٹی وی چینلز کیخلاف سخت کارروائی کی جائے ۔کمیٹی نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام پر پابندی لگانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا ہندی پروگرام ،انڈین گانوں پر ازخود نوٹس نہیں لیتا اور شاہد مسعود کے پروگرام پر نوٹس لے لیا ، اور اینکر کا موقف سنے بغیر انہیں سزا دیدی گئی جو آئین ،قانون اور میڈیا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے ، چینل کی بجائے ایک شخص کو سزا غلط ہے ،چینل بند ہونا چاہئے تھا جس سے مالک کو تکلیف ہو ،مالک کی مرضی کے بغیر پروگرام نہیں چلایا جا سکتا، لوگوں کی نوکریاں آنی جانی ہوتی ہیں، پاکستان کے علاوہ ہر چیز پر قدغن لگ سکتی ہے،چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ڈاکٹرشاہد مسعود کے پروگرام پر سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد کارروائی کی گئی اور شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ،چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کے بیٹے کے اغواء کے بعد شاہد مسعود نے پروگرام میں کچھ ایسی باتیں کیں جو بادی النظر میں کوڈ آف کنڈکٹ کے خلاف تھیں،اویس علی شاہ کے اغواء پر پروگرام کے حوالے سے سپریم کورٹ نے سمن کیا،چینل کو مکمل بند نہیں کیا جا سکتا سینکڑوں لوگوں کی نوکریوں کا مسئلہ ہے۔

(جاری ہے)

پیر کو کمیٹی کا اجلاس چیئرمین سینیٹر کامل علی آغا کی زیر صدارت ہوا۔اجلاس میں ارکان کمیٹی کے علاوہ سیکرٹری وزارت اطلاعات و نشریات صبا ء محسن، چیئرمین پیمرا ابصار عالم اور دیگر متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ اجلاس میں پیمرا کی طرف سے اے آر وائی نیوز چینل کے اینکر پرسن شاہد مسعود کے پروگرام پر پابندی کے حوالے سے تفصیلی بحث کی گئی۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پیمرا کو غیر سیاسی ادارہ دیکھنا چاہتے ہیں،پیمرا ہندی پروگرام ،انڈین گانوں پر ازخود نوٹس نہیں لیتا اور شاہد مسعود کے پروگرام پر نوٹس لے لیا گیا۔ پیمرا نے شوکاز نوٹس ٹی وی چینل کو جاری کیا اور سماعت کو موقع بھی نہیں دیا گیا اور سزا اینکر پرسن کو دے دی گئی ۔چیئرمین کامل علی آغا کہا کہ کسی کو بغیر سنے سزا دینے کا کوئی قانون نہیں آئین پاکستان کی پابندی بھی نہیں کی گئی۔

پیمرا کی طرف سے دی گئی بریفنگ میں اینکر پرسن کے خلاف کہیں جرم ثابت نہیں ہوتا ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اخباری تراشوں کو دکھا کر کمیٹی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا ۔ چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہا کہ رمضان المبارک میں جیو اور آج ٹی وی کے پروگرام بند کئے گئے جہاں بھی ضرورت پڑے پیمرا کارروائی کرتی ہے۔شاہد مسعود کے پروگرام پر سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد کارروائی کی گئی ۔

سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ چینل کی بجائے ایک شخص کو سزا غلط ہے چینل بند ہونا چاہئے تھا جس سے مالک کو تکلیف ہو مالک کی مرضی کے بغیر پروگرام نہیں چلایا جا سکتا۔سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ لوگوں کی نوکریاں آنی جانی ہوتی ہیں ۔ پاکستان کے علاوہ ہر چیز پر قدغن لگ سکتی ہے۔ پارلیمنٹ توڑنے،پارلیمنٹ اور ججوں کے لڑانے کے کام کئے جا رہے ہیں کیا فحاشی،عریانی ،ٹریفک قوانین،تعلیم،اخلاقیات کے بارے میں بھی پروگرام چلائے جاتے ہیں۔

انڈین ماڈلز کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ چیئرمین پیمر انے کہا کہ متعلقہ بندہ سماعت کیلئے نہیں آنا چاہتا تو کیا کی جا سکتا ہے۔سینیٹر سردار یعقوب خان ناصر نے کہا کہ قانون کا عمل سب کیلئے برابر ہونا چاہئے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ایک چینل کے خلاف 216شکایات آئیں کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔کمیٹی کی سفارشات پر بھی عمل نہیں کیا جاتا ۔

پیمرا کو پروگرام اور اینکرپرسن کے خلاف از خود کارروائی کرنی چاہئے تھی سپریم کورٹ کے ازخودنوٹس کی وجہ سے کارروائی کی گئی۔چیئرمین پیمرا ابصار عالم نے کہاکہ 19جولائی کے نوٹس میں وقت دیا گیا لیکن30جولائی کو اے آر وائی کا جواب آیا جس میں سماعت سے معذرت کر لی اور آگاہ کیا کہ رپورٹر آف دا ریکارڈ ،پاور پلے سوال یہ ہے کہ لائیو ود مسعود پروگراموں پر ایک ایک ایڈوائز یا نوٹس دیا گیا۔

اے آر وائی کے صرف ایک پروگرام جس کے بارے میں وفاقی وزیر خزانہ نے شکایت کی اور عدالت گئے 8لاکھ کا جرمانہ کیا گیا۔ سینیٹر مشاہد اﷲ اور سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ شاہدمسعود نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف من گھڑت خبروں سے نفرت پھیلائی ۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سپریم کورٹ میں کوڈ آف کنڈکٹ وزارت کا جمع کرانا انٹلیکچول کرپشن ہے ۔

سینیٹر مشاہد اﷲ نے کہا کہ کمیٹی کو دیکھنا ہوگا کہ کوڈ آف کنڈیکٹ بنانے کا اختیار وزارت کو یا قانون و انصاف کا ہے۔قانون کی بالادستی ہونی چاہیے حکومت کسی بھی چینل پر پابندی یا کسی اینکر پرسن کے حق میں نہیں ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے ریگولیٹریز باڈیز کا کردار بہتر ہونا چاہیے، پاگل پن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ پروگرام ابھی تک چل رہا ہے بند نہیں ہوا، روزانہ پاکستان پارلیمنٹ اور اداروں کے حوالے سے پروگرام چلائے جاتے ہیں، سپریم کورٹ کے احکامات کے بغیر پیمرا کو کارروائی کرنے چاہیے تھی۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پروگرام ابھی تک چل رہا ہے مکمل عمل درآمد نہیں ہوا قانون کی بہتری میں اگر مدد کی ضرورت ہے تو مثبت تجاویز بھی دی جانی چاہیں ،سینیٹر مشاہد اﷲ نے سوال اٹھایا کہ اے آر وائی کے معاملے میں شکایا ت کونسل کا کردار کیا رہا دیکھنے کی ضرورت ہے، چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ہر چینل میں ایڈٹوریل کنڑول کمیٹی موجود ہے جس پر چیئرمین پیمرا نے آگاہ کیا کہ ہر چینل کو ایڈٹوریل کمیٹی بنانا لازمی ہے ۔کمیٹی کی طرف سے سفارش کی گئی کہ قانون کے تحت کمیٹی لازمی بنائی جائے جہاں نہیں وہاں کارروائی کی جائے