سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کی بلوچستان میں وکلاء کی شہادتوں سے پیدا خلاء پر کرنے کیلئے حکومت اور ایچ ای سی سے کوئٹہ میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو وکالت کی تعلیم دینے کیلئے خصوصی سکالر شپس شروع کرنے کی سفارش

حکومت نے کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے گذشتہ سال1.8ارب ، رواں سال 2.5ارب روپے جاری کیے ،آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت 400طلباء نے وظائف کیلئے کوائف جمع کروائے،122طلباء کو سکالر شپس دے دی گئیں ،مزید 30کوجلد دی جائیں گی،ملک بھر کے 66اضلاع میں 2مراحل میں یونیورسٹیز کیمپس تعمیر کیے جائیں گے ، داخلوں کیلئے ایچ ای سی فروری2017سے اپنی ٹیسٹنگ سروس شروع کرنے جارہا ہے، طلبہ کی انٹری اور این ٹی ایس کے ذریعے دیئے جانے والے ٹیسٹ کی فیس ختم کردی جائے گی سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقہ جات کو چیئرمین ایچ ای سی کی بریفنگ

پیر 22 اگست 2016 19:05

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔22 اگست ۔2016ء) سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقوں نے بلوچستان میں حالیہ دہشتگردی کے واقعے میں بڑی تعداد میں وکلاء کی شہادت سے پیدا ہونیوالے خلاء کو پر کرنے کیلئے حکومت اور ہائیرایجوکیشن کمیشن سے کوئٹہ میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو وکالت کی تعلیم دینے کیلئے خصوصی سکالر شپس کا آغاز کرنے کی سفارش کردی۔

چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار نے کمیٹی کو اس حوالے سے اقدامات کرنے اور مکمل حمایت کی یقین دہانی کراتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے کم ترقی یافتہ علاقوں کیلئے گذشتہ سال1.8ارب روپے جبکہ رواں سال 2.5ارب روپے جاری کیے ہیں،آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت 400طلباء نے وظائف کیلئے کوائف جمع کروائے،122طلباء کو سکالر شپس دے دی گئی ہیں مزید 300طلباء کو سکالر شپ دی جائیں گی،ملک بھر کے 66اضلاع میں 2مراحل میں یونیورسٹیز کیمپس تعمیر کیے جائیں گے،فیز ون میں31اضلاع جبکہ فیز ٹو میں 35کم ترقی یافتہ اضلاع میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیے جائیں گے،یونیورسٹیزمیں داخلوں کیلئے ہائرایجوکیشن فروری2017سے اپنی ٹیسٹنگ سروس شروع کرنے جارہا ہے،جس کے تحت طلبہ کی انٹری ٹیسٹ اور این ٹی ایس کے ذریعے دیئے جانے والے ٹیسٹ کی فیس ختم کردی جائے گی جو طلبہ ایچ ای سی کا انٹری ٹیسٹ پاس کریں گے انہیں بنا انٹری فیس دیئے یونیورسٹیز میں داخلہ ملے گا۔

(جاری ہے)

پیر کو چیئرمین سینیٹر عثمان خان کاکڑ کی زیر صدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقے کا اجلاس ہوا،اجلاس میں سینیٹر جہانزیب جماالدینی،سینیٹر ثمینہ عابد،سینیٹر میر کبیر احمد،سینیٹر روبینہ عرفان،سینیٹر نثار احمد،سینیٹر خالدہ پروین،سینیٹر سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل اور سینیٹر گیان چند نے شرکت کی۔کمیٹی اجلاس میں ہائیرایجوکیشن کی طرف سے کم ترقی یافتہ علاقوں میں تعلیمی شعبہ میں اقدامات پر بریفنگ کیلئے چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر مختار اور دیگر حکام نے شرکت کی۔

اجلاس میں سینیٹر جہانزیب جماالدینی کے بیٹے کی وفات پر فاتحہ خوانی کی گئی۔اجلاس میں سینیٹر میر کبیر نے سوال اٹھایا کہ بلوچستان سے اگر کوئی بچہ میٹرک یا مڈل تھرڈ ڈویژن میں اور ایم ایس سی فرسٹ ڈویژن میں پاس کرتا ہے تو اس کی اسکالر شپ اس وجہ سے مسترد کردی جاتی ہے چونکہ اس نے میٹرک تھرڈ ڈویژن میں پاس کی ہوتی ہے،ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اس طالبعلم کی ایم ایس سی میں فرسٹ ڈویژن کو مدنظر رکھ کر سکالر شپ دینی چاہیے۔

اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ بلوچستان میں حالیہ دہشتگردی کے واقعے میں 65کے قریب وکلاء کی شہادت ہوئی،جس سے وکالت کے شعبے میں بہت بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے،کوئٹہ میں میرے صرف چند بیرسٹر دوست ہی اس سانحہ میں محفوظ رہے ہیں،حکومت اور ہائیرایجوکیشن کمیشن کوئٹہ میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو وکالت کی تعلیم دینے کیلئے سکالر شپس کا اعلان کرے جس پر چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا کہناتھا کہ میں اس بات سے بالکل متفق ہوں وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے پر اعتراض نہیں ہوگا اگر کمیٹی سفارش کرتی ہے تو اس سلسلے میں کام ہوسکتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے ممبران کے اتفاق رائے سے کوئٹہ میں وکالت کے طلباء کیلئے خصوصی سکالرشپس کے آغاز کی سفارش کردی۔

چیئرمین ہائیرایجوکیشن کمیشن نے ایچ ای سی کے گذشتہ تین سالوں میں فاٹا سمیت کم ترقی یافتہ علاقوں میں کارکردگی بارے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ جس یونیورسٹی کیمپس پر زیادہ تیزی سے کام ہوتا ہے اسے بجٹ سے زیادہ پیسہ بھی فراہم کیا جاتاہے، حکومت نے کم ترقی یافتہ اور پسماندہ علاقوں کیلئے گذشتہ برس 1.8ارب روپے اور رواں سال 2.5ارب روپے جاری کیے ہیں،اس وقت 40ملین سے زائد بچے ایسے ہیں جنہیں یونیورسٹیوں میں ہونا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے،ہم اس کیلئے لوکل مقامی ریڈیو اور یونیورسٹیوں وکالجز میں پمفلٹ کی تقسیم کے ذریعے اسکالر شپس کا اعلان کر رہے ہیں،بلوچستان میں سپورٹس سٹوڈنٹس کو بھی میرٹ پر اسکالر شپس دی جائیں گی،کم ترقی یافتہ علاقوں میں پچھلے تین سالوں میں 25 ارب روپے کے 28منصوبے لانچ کیے گئے ہیںِ۔

چیئرمین کمیٹی عثمان کاکٹر نے کہا کہ چین اور یورپ میں 10سال کے کام 10مہینے میں ہوتے ہیں جبکہ پاکستان خصوصاً بلوچستان،فاٹا اور جنوبی پنجاب میں 10مہینوں کے کام 10سال میں ہوپاتے ہیں جس پر چیئرمین ایچ ای سی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہمارے ہاں بھی جو منصوبے 10ماہ میں مکمل ہونے ہوتے ہیں وہ 8ماہ میں مکمل کیے جاتے ہیں لیکن ہم میں تمام تر کام آئینی حدود میں رہتے ہوئے سرانجام دینا پڑتا ہے اگر ہم اپنے اختیارات سے بڑھ کر کسی منصوبے کیلئے کچھ کریں تو بعد میں نیب ہمارے پیچھے پڑ جاتی ہے پھر سیاست دان ہمیں پہچاننے سے بھی انکار کردیتے ہیں اور بیوروکریٹ رگڑے جاتے ہیں۔

کمیٹی نے حکومت سے ایچ ای سی کیلئے مختص کردہ فنڈز بھی جاری کرنے کی سفارش کی۔چیئرمین ایچ ای سی نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ آغاز حقوق بلوچستان پیکج کے تحت 400طلباء نے وظائف کیلئے کوائف جمع کروائے،122طلباء کو سکالر شپس دے دی گئی ہیں مزید 300طلباء کو سکالر شپ دی جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹیزمیں داخلوں کیلئے ہائرایجوکیشن فروری2017سے اپنی ٹیسٹنگ سروس شروع کرنے جارہا ہے،جس کے تحت طلبہ کی انٹری ٹیسٹ اور این ٹی ایس کے ذریعے دیئے جانے والے ٹیسٹ کی فیس ختم کردی جائے گی جو طلبہ ایچ ای سی کا انٹری ٹیسٹ پاس کریں گے انہیں بنا انٹری فیس دیئے یونیورسٹیز میں داخلہ ملے گا۔

چیئرمین ایچ ای سی نے مزید بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر کے کم ترقی یافتہ 66اضلاع میں 2مراحل میں یونیورسٹیز کیمپس تعمیر کیے جائیں گے،فیز ون میں31اضلاع جبکہ فیز ٹو میں 35کم ترقی یافتہ اضلاع میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیے جائیں گے۔پہلے مرحلے میں گلگت بلتستان کے 7میں سے 3اور دوسرے مرحلے میں 4اضلاع میں کمیپس تعمیر کیے جائیں گے،آزادکشمیر کے دو اضلاع میں سے پہلے فیز میں ایک اور دوسرے فیز میں بھی ایک ضلع میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیا جائے گا۔

فاٹا کے7اضلاع میں یونیورسٹی کیمپس نہیں ہے،پہلے فیز میں ایک اور دوسرے فیز میں 6اضلاع میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیے جائیں گے،بلوچستان کے 27اضلاع میں سے پہلے مرحلے میں 9اور دوسرے مرحلے میں 18اضلاع میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیے جائیں گے۔خیبرپختونخوا کے 6میں سے5اضلاع میں پہلے مرحلے اور ایک ضلع میں دوسرے مرحلے میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیا جائیگا،پنجاب کے 7اضلاع میں سے 4اضلاع میں پہلے مرحلے جبکہ تین اضلاع میں دوسرے مرحلے میں یونیورسٹی کیمپس تعمیر کیے جائیں گے۔سندھ کے 10اضلاع میں سے 8میں پہلے اور2میں دوسرے مرحلے میں کیمپس تعمیر کے جائیں گے۔