پاکستان میں توانائی کے شعبے کے واجب الوصول اثاثوں کا حجم ریکارڈ 684ارب روپے سے تجاوز

مقامی سطح پر بجلی کی پیداواری لاگت میں 27 فیصد تک ہونے والی کمی کے باوجود پاور سیکٹر کے قابل وصول اثاثوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا

پیر 22 اگست 2016 16:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 اگست۔2016ء) پاکستان میں توانائی کے شعبے کے واجب الوصول اثاثوں کا حجم ریکارڈ 684ارب روپے سے تجاوز کرگیا جو تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔مقامی سطح پر بجلی کی پیداواری لاگت میں 27 فیصد تک ہونے والی کمی کے باوجود پاور سیکٹر کے قابل وصول اثاثوں میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے کی جانب سے واجب الادا رقم کے حجم میں بھی 44 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے اور جون 2016 تک یہ رقم 300 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی جبکہ تین برس قبل یہ 207 ارب روپے تھا۔

حکومت کی جانب سے بجلی پیدا کرنے والی اور ایندھن سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو 480 ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود ان کے واجب الادا رقم کے حجم میں اضافہ ہوا ہے۔واجب الوصول اثاثوں میں پاور سیکٹر کے صارفین اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے بقایا جات کی وصولیاں شامل ہیں جبکہ توانائی کے شعبے کو انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)، فیول سپلائرز اور واٹر اینڈ پاور ڈویولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کو 300 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔

(جاری ہے)

یہ اعداد و شمار پاکستان الیکٹرک پاور کمپنی (پیپکو) کی جانب سے وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت پانی و بجلی کو پیش کی جانے والی 'فنانشل ریویو 16-2015' میں بیان کیے ہیں۔پیپکو نے اپنی رپورٹ میں جو مثبت بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ مالی سال 16-2015 میں بجلی کے بلوں کی مد میں وصولیوں کی شرح 94.4 فیصد رہی جو گزشتہ برس 89.2 فیصد تھی۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی سسٹم لاسز میں بھی کمی آئی ہے اور یہ 18.7 فیصد سے کم ہوکر 17.9 فیصد ہوگیا ہے۔

پاور سیکٹر کے واجب الادا رقم کا حجم 2012 کے اختتام تک 461 ارب روپے تک جاپہنچا تھا لیکن جون اور جولائی 2013 میں حکومت کی جانب سے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے بعد یہ حجم کم ہوکر 207.2 ارب روپے رہ گیا تھا۔اس اقدام پر اپوزیشن جماعتوں نے کافی تنقید کی تھی اور اسے پری آڈٹ قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔30 جون 2016 تک کے اعداد و شمار کے مطابق پاور سیکٹر کو آئی پی پیز کو 173 ارب روپے، آئل کمپنیوں کو 76 ارب، بینکوں کو 19 ارب اور مختلف جنریشن اینڈ ٹرانسمیشن کمپنیوں کو 32 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاور سیکٹر کے واجب الوصول اثاثوں کی مالیت میں 2011 کے بعد سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے، اس وقت یہ حجم 286 ارب روپے تھا۔30 جون 2013 میں پاور سیکٹر کے واجب الوصول اثاثوں کی مالیت 411 ارب روپے تک جاپہنچی تھی اور اب بھی اس میں اضافے کا رجحان جاری ہے۔مثال کے طور پر جون 2014 تک اس کی مالیت 25 فیصد اضافے کے بعد 513 ارب، 2015 میں 23 فیصد اضافے کے بعد 633 ارب اور اب اس کی مالیت 684.06 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔

بلوں کی مد میں واجب الوصول رقم کا حجم 2012 میں 197 ارب روپے تھا جو جون 2016 تک 423 ارب روپے تک جاپہنچا ہے حالانکہ صارفین کی جانب سے 35 یوم کے اندر بل کی ادائیگی نہ ہونے پر بجلی کاٹ دی جاتی ہے۔جون 2016 تک کے اعداد و شمار کے مطابق مختلف کنزیومر کیٹیگریز اور سبسڈیز کی مد میں وفاقی حکومت پر واجب الادا رقم کا حجم 17 ارب روپے ہے جبکہ سندھ حکومت کے ذمے 74 ارب ، پنجاب کے ذمے 5.7 ارب، خیبر پختونخوا کے ذمے 88 کروڑ اور بلوچستان حکومت کے ذمے 18.6 ارب روپے ہیں۔

اس کے علاوہ آزاد جموں و کشمیر کے ذمے واجب الادا رقم کا حجم 65 ارب روپے، کے الیکٹرک کے ذمے 46 ارب جبکہ فاٹا کے ذمے 21 ارب روپے ہیں۔بلوچستان میں لگائے جانے والے ٹیوب ویلز کی کنزیومر شیئر کی مالیت 127 ارب روپے رکھی گئی تھی تاہم وفاق اور صوبائی حکومت کے درمیان یہ معاملہ طے ہونے تک یہ ہدف حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔اسی طرح خیبر پختونخوا میں مقدمات عدالت میں ہونے کی وجہ سے بجلی کے نرخوں میں اضافے میں تاخیر کی وجہ سے 19 ارب روپے مختص کیے گئے تھے جن کی واپسی کے امکانات بھی کم ہیں۔

حکومت کو آگاہ کیا گیا ہے کہ بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت بھی 14-2013 کے مقابلے میں 26.82 فیصد تک کم ہوئی ہے اور پہلے فی یونٹ لاگت 10.14 روپے آتی تھی جو اب کم ہوکر 7.42 روپے ہوگئی ہے اور اس کی اہم وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہے۔مثال کے طور پر تیل پر چلنے والے بجلی گھروں سے فی یونٹ بجلی کی پیداوار پر 13-2012 میں اوسطاً 18.84 روپے لاگت آتی تھی جو 16-2015 میں کم ہوکر 10.90 روپے فی یونٹ ہوگئی۔

اسی طرح ڈیزل سے بننے والی بجلی پر 14-2013 میں 28.41 روپے فی یونٹ لاگت آتی تھی جو جون 2016 میں کم ہوکر 17.96 روپے ہوگئی۔اس کے علاوہ گیس سے بننے والی بجلی کی فی یونٹ لاگت میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جون 2013 میں فی یونٹ بجلی پر 6.86 روپے لاگت آتی تھی جو اب بڑھ کر 9.07 روپے تک پہنچ چکی ہے۔پانی سے بننے والی بجلی کی پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا ہے ، تین برس قبل اس پر فی یونٹ لاگت 1.50 روپے آتی تھی جبکہ اب فی یونٹ 2.15 روپے میں پڑتا ہے حالانکہ مجموعی پیداوار میں پانی سے بننے والی بجلی کا حصہ 34 فیصد پر برقرار ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کی پانچ تقسیم کار کمپنیوں کی وصولی کی شرح میں بہتری آئی ہے اور یہ گزشتہ برس 97.3 فیصد تھی جو اب بڑھ کر 98.2 فیصد ہوگئی ہے۔ان میں سے لاہور، گجرانوالہ، ملتان اور فیصل آباد کی تقسیم کار کمپنیوں کی وصولیوں کی شرح تو 99.2 سے 100 فیصد تک ہے۔اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی جسے ملک کی سب سے بہترین تقسیم کار کمپنی سمجھا جاتا ہے لیکن اس کی وصولی کی شرح 91 فیصد ہی رہی۔

اسی طرح کوئٹہ الیکٹرک سپلائی کمپنی نے گزشتہ برس کی نسبت بہت زیادہ بہتری دکھائی ہے اور وصولیوں کی شرح 33 فیصد سے بڑھاکر 72 فیصد تک لے آئی ہے۔پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کی جانب سے کی جانے والی وصولیوں کی شرح 0.5 فیصد اضافے کے بعد 88.5 فیصد پر پہنچ گئی ہے۔حیدر آباد اور سکھر کی تقسیم کار کمپنیوں نے بھی وصولیوں میں بہتری دکھائی ہے اور بالترتیب ان کی وصولیوں کی شرح 72 اور 55 فیصد رہی۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 16-2015 میں پاور کمپنیوں نے مجموعی طور پر صارفین سے 942 ارب روپے وصول کیے جب کہ بلوں کی مد میں واجب الوصول رقم کا حجم 997 ارب روپے تھا اس حساب سے وصولی کی شرح 94.5 فیصد بنتی ہے

متعلقہ عنوان :