جماعت اسلامی پنجاب کی مجلس شوریٰ کا اجلاس ،سیاسی صورتحال اورامن وامان کی خرابی کے حوالے سے قرار داد متفقہ طور پر منظور

سانحہ کوئٹہ کی شدید مذمت ،پنجاب میں امن وامان کے حوالے سے مجموعی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار ،وارداتوں میں اضافہ ہونے کے باوجود ایس ایچ او صاحبان اور متعلقہ پولیس افسران ساری وارداتوں کی ایف آئی آر درج نہیں کرتے‘ متن

بدھ 17 اگست 2016 21:19

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔17 اگست ۔2016ء) جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کااجلاس امیر جماعت اسلامی پنجاب میاں مقصود احمد کی زیر صدارت گزشتہ روز منصورہ لاہور میں منعقد ہوا ۔اجلاس میں ملک کی سیاسی صورتحال اور امن وامان کی خرابی کے حوالے سے قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔جس میں کہا گیاہے کہ جماعت اسلامی پنجاب کی صوبائی مجلس شوریٰ کایہ اجلاس سانحہ کوئٹہ کی شدید مذمت کرتاہے اورصوبہ پنجاب میں امن وامان کے حوالے سے مجموعی صورتحال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتاہے۔

حکومت پنجاب کے مرتب کردہ اپنے اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ چوری،ڈکیتی،اغو برائے تاوان،قتل،موٹرسائیکل وکار چوری وچھیننے،فراڈ وغیرہ کی وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے باوجود اس کے SHOصاحبان اور متعلقہ پولیس افسران ساری وارداتوں کی ایف آئی آر درج نہیں کرتے۔

(جاری ہے)

حالیہ دنوں میں بچوں کے اغواء کے گروہ سرگرم ہیں اورمیڈیا نے اس سنگینی کو کوریج کے ذریعے مزیدبڑھا دیاہے۔

حکومت کی طرف سے ہمہ جہتی پالیسی کا فقدان نظر آرہا ہے۔ایسے معاملات میں عوام کو بھی اعتماد میں نہیں لیاجاتا حالانکہ الیکٹرونک میڈیا کے اس دور میں یہ بہت آسان ہے اور سدباب میں آسانی ہوسکتی ہے۔یقینا جنرل مشرف کی عاقبت نااندیش اور بزدلانہ پالیسی کے نتیجہ میں امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف اپنے مفاد کی جنگ کو پاکستان کے اندردہشتگردی کے فروغ کے لیے استعمال کیا ہے اور اب طویل عرصہ سے ہماراازلی دشمن ہندوستان پاکستان کوکمزور اور ختم کرنے کیلئے دہشتگردی کی اس آگ کوبڑھکانے کی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اور دہشتگردی کے بے شمار تباہ کن واقعات رونما ہوچکے ہیں اور امن وامان پر اس کے شدید منفی اثرات اظہرمن الشمس ہیں۔

قوم کو عزم اور حوصلہ دینے کی بجائے حکومتی بزرجمہراس کے الٹ پالیسیاں مرتب کرتے ہیں جیسے 14اگست یوم آزادی پر بھرپورسرکاری تقریبات کی منسوخی اور اس کی بجائے بند کمروں میں چھوٹے چھوٹے پروگرامات کی ترتیب اور عمومی سطح پر بھی منظم اچھے پروگرامات کی حوصلہ شکنی جیسے جماعت اسلامی یوتھ کی یوم آزادی ریلیوں کوپولیس کے ذریعے روکنا،کئی اضلاع میں گرفتاریاں کسی بھی طرح درست طرزعمل نہیں ہے۔

یہ اجلاس ایسی بزدلانہ پالیسیوں کی مذمت کرتا ہے۔پولیس جوکہ امن ومان کوبرقرار رکھنے کی براہ راست ذمہ دارہے موجودہ دور کے جرائم کے طریقہ ہائے کار سمجھنے میں کم فہم ہے۔اہلیت کے مطلوبہ معیارپر پورانہیں اترتی۔تھانہ بالخصوص اور بالائی سطح پر اس ادارے میں رشوت ستانی کے بڑھتے ہوئے رجحان اور انصاف کا خون کرتی ہوئی سیاسی مداخلت کی وجہ سے یہ ادارہ اب مثبت کارکردگی دکھانے میں بہت کمزور نظر آتاہے۔

آئی جی پولیس کی بجائے وزیر اعلیٰ پنجاب کا انٹرویوکرکے ڈی پی اوز،آر پی اوز کاتقرر کرنے کا طریقہ کار کھلی سیاسی مداخلت ہے اور کپتان کو اپنی منتخب کردہ ٹیم کی بجائے وزیر اعلیٰ کی منتخب کردہ ٹیم کولے کر مثبت مطلوب نتائج کسی بھی طرح درست طریقہ نہیں ہے۔نچلی سطح پر وسائل کی کمی اور ڈیوٹی کے بے ترتیب اقدامات بھی اس ادارے کی کمزوریوں میں اضافہ کرتے ہیں۔

نچلی سطح پرسیکیورٹی کے اداروں اور انٹیلی جنس کے ادارے آپس میں مسابقت کرتے نظرآتے ہیں۔عدلیہ میں مقدمات کی لمبی طوالت حالات کی درستگی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنے چندپیاروں کی بجائے حکومت پنجاب دوررس اقدامات کے لیے کھلے دل کے ساتھ تمام اسٹیک ہولڈرزکے ساتھ مل کر پالیسیوں کو ازسرنوترتیب دے اور اﷲ پر بھروسہ کرکے یکسوئی کے ساتھ اس پر عمل درآمد کرے۔