عید الاضحٰی کی آمد کے پیش نظر کانگو وائرس سے بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے ‘پروفیسر غیاث النبی طیب

کانگو وائرس کا مریض تیز بخار سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے اورآنکھوں میں مبتلا ہو جاتا ہے پرنسپل پی جی ایم آئی پروفیسر غیاث النبی کالاہور جنرل ہسپتال میں کانگو وائرس سے متعلق آگاہی ورکشاپ سے خطاب

بدھ 17 اگست 2016 19:15

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔17 اگست ۔2016ء) پرنسپل پوسٹ گریجوایٹ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ و جنرل ہسپتال پروفیسر غیاث النبی طیب نے کہا ہے کہ بھیڑ، بکری اور دیگر جانوروں کی جلد پر پائے جانے والے کیڑے سے پیدا ہونے والا مرض کانگوکینسر سے زیادہ خطرناک ہے ،پاکستان میں عید الاضحی کی آمد آمد ہے،ہمیں کانگو وائرس سے بچاؤ کے خصوصی اقدامات کرنا چاہئے۔

یہ بات انہوں نے جنرل ہسپتال میں کانگو وائرس کے حوالے سے منعقدہ آگاہی ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ ورکشاپ میں ،ایم ایس ڈاکٹر جنید مرزا ڈاکٹرز،نرسز اور پیرامیڈیکل سٹا ف کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ شخصیات نے ایک بڑی تعداد میں شرکت کی۔پروفیسر غیاث النبی طیب نے کہا کہ کانگو وائرس کوئی نئی بیماری نہیں۔

(جاری ہے)

یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ،مشرقی یورپ، اورمشرقی وسطی ایشاء میں پایا جاتا ہے۔

سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ انہی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری بھی کہا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس بیماری کے ٹکس (یا ایک قسم کا کیڑا)مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔کانگو سے متاثرہ مریض کی علامات کی بابت آگاہی دیتے ہوئے پروفیسر غیاث النبی طیب نے کہا کہ کانگو وائرس کا مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ متاثرہ مریض کے جسم سے خون نکلنے لگتا ہے اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

انفیکشن کے بعد جسم سے خون نکلنا شروع ہوجاتا ہے اورخون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔پرنسپل پی جی ایم آئی نے کہا کہ کانگو وائرس کا سائنسی نام ’’کریمین ہیمریجک کانگو فیور‘ ‘ہے جس کی 4 اقسام ہوتی ہیں جن کو ہم ڈینگی وائرس، ایبولا وائرس،لیسا وائرس، اور ریفٹی ویلی وائرس کے نام سے جانتے ہیں۔کانگو وائرس کاٹکس(پسو)نامی کیڑا ہی اس بیماری کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

یہ کیڑا اگر انسان کو کاٹ لے یا پسو سے متاثرہ جانور ذبح کرتے ہوئے بے احتیاطی کی وجہ سے قصائی کے ہاتھ پر کٹ لگ جائے تو یہ وائرس انسانی خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور یوں کانگو وائرس جانور سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے جانور میں منتقل ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے ۔ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے- انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سال 2002 ء میں کانگو وائرس کی وجہ سے سات افراد لقمہ اجل بنے تھے۔

اگر یہ کہا جائے کہ یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی وبائی بیماری ہے تو قطعا بے جا نہیں ہو گا۔ لہذا ہمیں اس بابت بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔پرنسپل نے کانگو وائرس سے متعلق آگاہی ورکشاپ کے شرکاء نے متعدد سوالات کے جوابات بھی دئیے ۔

متعلقہ عنوان :