بلوچستان میں دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں ،ہم ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں‘پروفیسر ساجد میر

نیشنل ایکشن پلان کا نشانہ سب سے زیادہ مذہبی طبقہ بنامگر ہم نے قومی مفاد کی خاطر اسے قبول کیا،مدرسہ ریفارمز میں حکومت کا ساتھ دیامگر اسکے باوجودبے گناہوں کو مسجدوں اور مدرسوں میں نماز کی حالت میں گرفتار کیا گیا‘ جمعہ کے اجتماع سے خطاب اور وفود سے گفتگو

جمعہ 12 اگست 2016 20:45

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔12 اگست ۔2016ء) امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کا نشانہ سب سے زیادہ مذہبی طبقہ بنایا مگر ہم نے قومی مفاد کی خاطر اسے قبول کیا، مدرسہ ریفارمز میں حکومت کا ساتھ دیا مگر اسکے باوجودبے گناہوں کو مسجدوں اور مدرسوں میں نماز کی حالت میں گرفتار کیا گیا اور دو دو سال تین تین سال تک نامعلوم مقامات پر تفتیش کے بعد چھوڑ ا گیا اور بعض ابھی تک لاپتہ ہیں، ہمارا کل بھی یہ موقف تھا کہ جو مجرم ہے اسکے خلاف کارروائی ہونی چاہیے مگر بے گناہوں کو بلا وجہ سالہا سال تک غائب رکھنا اور ذہنی وجسمانی اذیت سے دوچار کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟،رہائی کے بعد بعض نوجوان نفسیاتی اور ذہنی مریض بن گئے۔

(جاری ہے)

بریڈ فورڈ کی مرکزی مسجد میں جمعہ کے اجتماع سے خطاب اور وفود سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گرد دندناتے پھررہے ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھرا رہے ہیں۔ اگر قوم دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے حکمرانوں اور عسکری قائدین کے اعلان کردہ اب تک کے اقدامات پر مطمئن ہوتی تو آج لوگوں کے چہروں پر خوف و ہراس کے بجائے اطمینان و اعتماد کی جھلک اجاگر نظر آتی مگر دہشت گرد گروہ اتنے منظم ہیں اور ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ وہ ہماری سکیورٹی ایجنسیوں کو بھی دھوکہ دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں اور اپنے ہر متعینہ ہدف تک پہنچ کر دہشت گردی یا خودکش حملے کی واردات کی صورت میں حکومتی ریاستی اتھارٹی اور سکیورٹی اداروں کی صلاحیتوں کو بھی مسلسل چیلنج کر رہے ہیں۔

سکیورٹی اداروں کی خامیاں دور کرنا کسی کی انا کا نہیں ملک کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتوں سے ہمارے سکیورٹی اداروں میں موجود خامیاں اور کمزوریاں مزید اجاگر ہو گئی ہیں۔ساجد میر کا کہنا تھا کہ پاک فو ج اور سیکورٹی ادارو ں کی قربانیوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر دہشت گرد آج بھی اس طرح حکومتی ریاستی اتھارٹی کو چیلنج کرتے نظر آرہے ہیں اور ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں تو ہمارے سکیورٹی انتظامات میں کہیں نہ کہیں تو کوئی گڑبڑ ہے جس سے دہشت گردوں کو فائدہ اٹھانے کاموقع مل رہا ہے۔

اس لئے دہشت گردی کی جنگ میں سکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار پر سوال اٹھ رہے ہیں تو اسکا جواب تو دینا پڑے گا۔ بیرونی مداخلت بھی اگر ہوتی ہے تو یہ ہم سب کے المیہ کی بات ہے اسکو روکنے کا بھی سیکورٹی اداروں کا کام ہے۔ یہ کسی مسجد کے مولوی یا مدرسہ کے استاد کا کام تو نہیں ہے۔