قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس، ممبران نیشنل بینک کے صدر کیخلاف پھٹ پڑے

نیشنل بینک میں مارشل لا لگا ہوا ہے کوئی قرضہ یا نوکری نہیں چاہیئے اجلاس میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر بارے ریفنگ کوسٹ اینڈ منیجمنٹ اکاؤنٹس ترمیمی بل2015ء اور بے تامی ٹرانزیکشن بل2016ء موخر

جمعرات 11 اگست 2016 17:48

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔11 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں ممبران کمیٹی نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر کے خلاف پھٹ پڑے۔ نیشنل بینک میں مارشل لا لگا ہوا ہے کوئی قرضہ یا نوکری نہیں چاہیئے۔ ہمارے حلقوں کے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں، 150سے زائد اراکین اسمبلی کو صدر کے خلاف شکایات ہیں لگتا ہے ان کو ہماری زبان سمجھ نہیں آ رہی۔

جمعرات کو قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس چیئر مین کمیٹی قیصر احمد شیخ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا اس موقع پر جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی شیر اکبر خان کی جانب سے پیش کئے گئے بل سود کے خاتمہ کا بل2015ء کا جائزہ لیا گیا ۔ سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ فیڈرل شریعت کورٹ میں یہ معاملہ زیر سماعت ہے۔

(جاری ہے)

دسمبر1990ء میں سپریم کورٹ نے ربا سے متعلق فیصلہ دیا تھا تو اس کو چیلنج کیا گیا تھا۔ حکومت نے اس حوالے سے کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ اس کمیٹی میں اس معاہدہ کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر شیر اکبر خان نے کہاکہ حکومت کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کی معیار 31دسمبر 2014ء کو ختم ہو گئی ہے ملک سے سود کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ اس دوران سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس کمیٹی کی معیار بڑھا دی ہے۔

جس پر یہ معاہدہ موخر کر دیا گیا۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن میاں عبدالمنان نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر کے خلاف پھٹ پڑے ۔ انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک کے صدر سید محمد اقبال اشرف کسی کو لفٹ نہیں کروا رہے لگتا ہے بینک میں مارشل لا لگا ہوا ہے 150اراکین اسمبلی نے ان کے خلاف شکایت کی ہے ان کو ہامری زبان تو سمجھ نہیں آ رہی لگتا ہے ان کو روس کی زبان سمجھ آتی ہے۔

ا نہوں نے کہا کہ ہم نے قرضے اور نوکریاں نہیں لینی بلکہ ہمارے حلقے کی عوام کے چھوٹے چھوٹے مسائل ہیں ان کو حل کروانا ہے اور یہ ہمارا حق ہے ان کو میں قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی میں طلب کر ہوں اس حوالے سے اراکین سے تحریری شکایات بھی لوں گا۔ اجلاس میں ریئل اسٹیٹ سیکٹر کے حوالے سے بریفنگ کوسٹ اینڈ منیجمنٹ اکاؤنٹس ترمیمی بل2015ء اور بے تامی ٹرانزیکشن بل2016ء کو موخر کر دیا گیا۔