پاکستان ہاکی فیڈریشن کی طرف سے سرسید یونیورسٹی کو پہلا منی آسٹروٹرف دینے کا اعلان

اچھے نتائج حاصل کرنے کیلئے صرف طاقت ،، جذبہ ہی نہیں بلکہ درست سمت میں کوششیں اور بہتر حکمتِ عملی بھی ضروری ہیں،چانسلر جاوید انوار

منگل 9 اگست 2016 19:10

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 اگست ۔2016ء) سرسیدیونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے اسپورٹس جرنلسٹ ایسوسی ایشن سندھ (سجاس) کے تعاون سے سندھ میں اسپورٹس کی موجودہ صورتحال کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس میں مقررین نے کھیلوں کے معیار کی تنزلی کے اسباب پر تفصیلی روشنی ڈالی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سرسید یونیورسٹی کے چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ اسپورٹس کے میدان میں ایک خلاء پیدا ہوگیا ہے اور ہماری ٹیمیں جو کبھی بین الاقوامی سطح پر صف اول کا مقام رکھتی تھیں، وہ اب تنزلی کا شکار ہو چکی ہیں۔

اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہوکہ جس نوعیت کی ترغیب اورسپورٹ کھلاڑیوں کو چاہیئے وہ قومی سطح پر ہم بحثیت قوم انھیں مہیا نہیں کر پار ہے ہیں اور وہ افراد اور ادارے بھی شاید کمزور ہوگئے ہیں جن کی سرپرستی اور تعاون سے کھلاڑی اور کلب کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے تھے۔

(جاری ہے)

چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ اچھے نتائج حاصل کرنے کے لیے صرف طاقت اور جذبہ ہی نہیں بلکہ درست سمت میں کوششیں اور بہتر حکمتِ عملی بہت ضروری ہیں۔

سرسید یونیورسٹی کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ یونیورسٹی کی سطح پر اچھا ٹیلنٹ سامنے آئے۔ اس لیے سرسید یونیورسٹی میں اسپورٹس سرگرمیوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے تاکہ طلباء کو تعمیری و مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھا جائے اور ان کے اندر مثبت مقابلے کا رجحان پیدا کیا جائے۔انھوں نے کہا کہ یہ مفروضہ بالکل غلط ثابت ہو چکا کہ کھیلوں سے بچوں میں بگاڑ پیدا ہوتا،بلکہ کھیلوں سے بچوں کی بہتر نشو نما ہوتی ہے اور ان کا دماغ روشن ہوتا ہے جو ان کی قابلیت و تخلیقی صلاحیت میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔

انھوں نے اس موقع پر بتایا کہ سرسید یونیورسٹی، نیا ناظم آباد پروجیکٹ کے تعاون و اشتراک سے ۱۷؍اگست ۲۰۱۶ء سے جشن آزادی کرکٹ ٹورنامنٹ کا آغاز کر رہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اسپورٹس سرگرمیوں کو فعال بنانے کے لیے کتنے سنجیدہ ہیں۔چانسلر جاوید انوار نے کہا کہ کھیلوں کی سرپرستی کے لیے سرسید یونیورسٹی میں اسپورٹس کوٹہ مقرر کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جا چکا ہے اور اسپورٹس اسکالر شپ کے لیے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی جا رہی ہے جو ٹیموں اور کھلاڑیوں کی کارکردگی اور متعلقہ کوچز کے ریمارکس کی بنیاد پر اسکالر شپ ایوارڈ دے گی۔

علاوہ ازیں سرسید یونیورسٹی کے وہ طلباء جو قومی و صوبائی سطح پر کھیلوں میں حصہ لیں گے اور قومی ٹیم کا حصہ بنیں گے، انکی خصوصی معاونت کی جائے گی۔اسپورٹس میں عمدہ کارکردگی پر کیش ایوارڈ بھی دیے جائیں گے اور یہ کیش ایوارڈ طالبِ علم کی فیس میں رعایت کی صورت میں دیا جائے گا۔اولمپیئن نوید عالم نے کہا کہ ہمیں اولمپک سے ہماری اپنی حرکتوں نے باہر کیا ہے۔

انھوں نے اس موقع پر سرسید یونیورسٹی کو پہلا منی آسٹرو ٹرف دینے کا اعلان کیا۔سجاس کے پیٹرن ڈاکٹر جنید شاہ نے کہا کہ افراد کی بجائے اداروں کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیئے۔ایک انگریزی اخبار کے اسپورٹس ایڈیٹر رشاد محمود نے کہا کہ حالیہ اولمپک میں صرف سات کھلاڑیوں نے شرکت کی ہے جن کے ساتھ سترہ عہدیدار تھے۔پہلے سو ڈیڑھ سو کے لگ بھگ کھلاڑی اولمپک میں حصہ لیتے تھے۔

ہاکی ٹیم تو اولمپک کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی۔ایک اردو اخبار کے اسپورٹس ایڈیٹر منصور علی بیگ نے کہا کہ ترقی کا عمل رک گیا ہے حالانکہ ماضی کے مقابلے میں کھلاڑیوں کو اب بے پناہ سہولیات میسر ہیں۔جب قومی کرکٹ ٹیم نے ۹۲ء کا ورلڈ کپ جیتا تو ٹیم میں ایک بھی کوچ نہیں تھا۔کھیلوں کا کلچر بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ایسوسی ایشن انٹرنیشل پریس اسپورٹس (AIPS) ایشیاء کے سیکریٹری امجد عزیز ملک نے کہا کہ ماضی کو سنہرا قراردینے کی روایت غلط ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہاکی اور اسکواش کے علاوہ کسی بھی کھیل میں قومی ٹیموں کی کارکردگی اچھی نہیں رہی ہے۔

سجاس کے قائم مقام صدر نے اظہار تشکر پیش کرتے ہوئے فیڈریشنز کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قوم و ملک کے مفاد میں کام کرنے کا مشورہ دیا۔

متعلقہ عنوان :