قومی اسمبلی نے کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے دہشتگردی کے خلاف لائحہ عمل مرتب کیا جائے‘ کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائی جمہوریت‘ عوام‘ وفاق اور خطہ کے خلاف سازش ہے ٗ دہشتگردی کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اور طریقہ کار وضع کرنا چاہیے‘ قومی اسمبلی کا وفد کوئٹہ جاکر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے ٗاراکین قومی اسمبلی صرف ’’را‘‘ پرالزام لگانے سے کام نہیں چلے گا ٗمحمود خان اچکزئی ہمارا دشمن ہمارے خلاف واضح کارروائیوں میں ملوث ہے تو ہمیں بھی نام لینا چاہیے ٗاکرم خان درانی

منگل 9 اگست 2016 17:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔9 اگست ۔2016ء) قومی اسمبلی نے کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے جبکہ اراکین نے کوئٹہ دھماکے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاہے کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے دہشتگردی کے خلاف لائحہ عمل مرتب کیا جائے‘ کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائی جمہوریت‘ عوام‘ وفاق اور خطہ کے خلاف سازش ہے ٗ دہشتگردی کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اور طریقہ کار وضع کرنا چاہیے‘ قومی اسمبلی کا وفد کوئٹہ جاکر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔

منگل کو وفاقی وزیر زاہد حامد نے قرارداد ایوان میں پیش کی جس میں کہا گیا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ اور بلوچستان بار کونسل کے صدر کے قتل پر پوری قوم گہرے غم اور صدمے سے دوچار ہے‘قرارداد میں جاں بحق ہونے والوں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی و اور تعزیت ٗ زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لئے دعا کی گئی ہے۔

(جاری ہے)

قرارداد میں کہا گیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں یہ ایوان بلوچستان کے عوام‘ وکلاء برادری‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور میڈیا کے نمائندوں کے ساتھ ہے۔

قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان ایسے مذموم مقاصد کے حامل عناصر کو شکست دینے اور دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ اس قسم کے مذموم اقدامات دہشتگردی کے خلاف ہمارے عزم کو متزلزل نہیں کر سکتے۔ قرارداد میں کہا گیاکہ ایسے اقدامات سے وطن عزیز کی حفاظت کے ہمارے عزم صمیم کو مزید جلاء بخشنے میں مدد ملے گی۔ سپیکر نے قرارداد ایوان میں پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

دریں اثناء قومی اسمبلی میں کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف بحث منگل کو بھی جاری رہی ۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی امجد علی خان نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی انتہائی اندوہناک واقعہ ہے‘ ایسے واقعات کے سدباب کے لئے فیصلوں میں عوام کو شامل کرنا چاہیے ٗجے یو آئی (ف) کے رکن قومی اسمبلی مولانا گوہر شاہ نے کہا کہ بم ڈسپوزل سکواڈ کی تربیت یقینی بنائی جائے اور انہیں جدید آلات فراہم کئے جائیں‘ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت دھرنوں کی بجائے عوام کے جان و مال کے تحفظ پر توجہ دے۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن میاں عبدالمنان نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ لائحہ عمل اور طریقہ کار وضع کرنا چاہیے‘ قومی اسمبلی کا ایک وفد کوئٹہ جاکر متاثرہ خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے دہشتگردی کے خلاف لائحہ عمل مرتب کیا جائے‘ کوئٹہ میں دہشتگردی کی کارروائی جمہوریت‘ عوام‘ وفاق اور خطہ کے خلاف سازش ہے‘ وزیراعظم اس کو ٹیسٹ کیس بنائیں اور فرنٹ فٹ پر جاکر ایسے ملک دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔

محمود خان اچکزئی نے کہاکہ صرف ’’را‘‘ پرالزام لگانے سے کام نہیں چلے گا ۔انہوں نے کہاکہ کوئٹہ کے سول ہسپتال پر حملہ پاکستان پر حملہ ہے ، اب ہم پاکستان میں کسی ملک کی پراکسی وارنہیں لڑیں گے ۔ انہوں نے کہاکہ کیا ایوان صرف دعاؤں کے لئے ہے ٗمیں آئندہ پارلیمنٹ میں فاتحہ خوانی نہیں کروں گا ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ دہشت گردی کے خلاف بلا امتیاز کارروائی لازمی ہے ۔

محمود خان نے الزام لگایا کہ ملک دشمن عناصر ہماری ایجنسیوں کی پے رول پر ہیں ۔ یہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں کی ناکامی ہے ۔ ہماری ایجنسیاں گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں تو دہشت گردوں کی تلاش میں کیوں ناکام رہیں ؟انہوں نے کہا کہ امریکہ جیسے ملک میں جب ایسا واقعہ ہو جاتا ہے تو اسے پورے امریکہ پر حملہ تصور کیا جاتا ہے، فوری طور پر وہ تحقیقات کرکے حملہ آوروں کی نشاندہی کرکے کارروائی کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ 12 گلیوں کا شہر ہے جہاں ہر گلی میں اور چوک میں سیکیورٹی اداروں کے اہلکار موجود ہیں۔ اگر ہمیں دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جیتنی ہے تو تمام سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ ملک کی ہر سیاسی جماعت حکومت کے سپاہی کے طور پر اپنا کردار ادا کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان سب سے پہلے ہے تو پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرکے لائحہ عمل مرتب کیا جائے، ایسی کارروائیاں جمہوریت‘ عوام‘ وفاق اور خطہ کے خلاف سازش ہیں۔

وزیراعظم اس کو ٹیسٹ کیس بنائیں اور فرنٹ فٹ پر جاکر ایسے ملک دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کریں۔ عوام کی حمایت کے بغیر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کا وفد اظہار تعزیت کے لئے کوئٹہ روانہ کیا جائے۔وفاقی وزیر ہاؤسنگ و تعمیرات اکرم خان درانی نے کہا کہ کوئٹہ میں دہشتگردی کا واقعہ افسوسناک ہے‘ سی پیک کسی ایک صوبے کا نہیں پورے پاکستان کا منصوبہ ہے‘ اس سے نیا پاکستان بننے جارہا ہے‘ اگر ہمارا دشمن ہمارے خلاف واضح کارروائیوں میں ملوث ہے تو ہمیں بھی اس کا نام لینا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالستار باچانی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے واقعہ کی مذمت کی ۔ مسلم لیگ (ن) کی رکن طاہرہ اورنگزیب نے کہا کہ ہمیں کوئٹہ دھماکے کے زخمیوں کی عیادت اور شہید ہونے والے افراد کے گھروں میں جاکر تعزیت کرنی چاہیے جبکہ اپنی ایک ماہ کی تنخواہ جاں بحق ہونے والوں کی بیواؤں کو دینے کا اعلان کرنا چاہئے ٗاس دھماکہ سے ہم سبق حاصل کریں کہ ہمیں دہشت گردی کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے مثبت تجاویز کا خیر مقدم کریں گے۔ سپیکر نے کہا کہ وہ اپنی تنخواہ دینے کی تجویز کے حوالے سے اراکین سے دستخط لے کر آگاہ کردیں اس پر فیصلہ کرلیں گے۔ ایم کیو ایم کی رکن ڈاکٹر فوزیہ حمید نے کہا کہ کوئٹہ کے دہشتگردی کے افسوسناک واقعہ کے بعد ہم سب متحد ہوگئے ہیں۔ ہمیں بطور قوم متحد ہونا ہوگا۔

نیشنل ایکشن پلان پر تعصب سے بالاتر ہو کر کام کرتے تو آج دہشت گردی نہ ہوتی۔ ہمیں سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھ کر اقدامات اور قانون سازی کرنی ہوگی تاکہ دہشت گردی کا قلع قمع ہو۔ پارلیمانی سیکرٹری رجب علی خان بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ کا اندوہناک واقعہ قابل مذمت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیوں سے دہشتگردی کے واقعات اور اس کی شدت میں کمی آئی ہے، اس موقع پر ہمیں اتحاد کا پیغام دینا ہوگا۔

چھوٹے صوبوں کے حق پر بڑے صوبے کے قابض ہونے کی باتیں کرنا عقل مندی نہیں ہے، صوبہ سندھ میں رینجرز کے آنے سے جرائم کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ سیاسی ادوار میں ملک کی ساکھ بہتر بنانے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے، نواز شریف نے پابندیوں کے باوجود ایٹمی دھماکے کئے۔ جماعت اسلامی کے رکن شیر اکبر خان نے کہا کہ امن و امان کا قیام ہر جماعت کے منشور میں شامل ہے۔

انہوں نے دہشتگردی کے خلاف عالمی جنگ میں امریکہ سے علیحدہ ہونے‘ پڑوسی ملک افغانستان سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اپنی پالیسی پر نظرثانی کی تجویز دی۔انہوں نے کہاکہ داخلہ کی کمیٹی کے اراکین کو تعزیت کے لئے کوئٹہ جانا چاہیے۔ نعیمہ کشور نے کہا کہ اے پی ایس کے بعد یہ بڑا سانحہ ہے۔ہمیں اس وقت سنجیدہ طور پر مل بیٹھ کر اپنی خامیوں پر غور کرنا چاہیے۔

پالیسی سازی میں اس ایوان کو بھی شامل کرنا ہوگا۔ انہوں نے تعزیت کے لئے پارلیمانی وفد بھیجنے کی تجویز دی۔ انہوں نے کہاکہ ہر فرد کو سیکیورٹی دینا حکومت کے لئے ممکن نہیں تاہم ایسی پالیسی بنانی ہوگی کہ ہر شہری اپنے آپ کو محفوظ تصور کرے۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسی پر غور کرنا ہوگا۔ غیر رجسٹرڈ مہاجرین کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ کی بجائے افغانستان سے مل کر پالیسی بنائی جائے۔

میڈیا مالکان سے پوچھا جائے کہ وہ اپنے ورکروں کو کتنی سیکیورٹی دیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی رکن منزہ حسن نے کہا کہ عوام میں عدم تحفظ پایا جاتا ہے ٗ ہسپتالوں میں جنگ کے دوران بھی حملہ نہیں ہوتا، عالمی سطح پر اس واقعہ کی مذمت ہونی چاہیے۔ کیا کلبھوشن یادیو کے قدم جمانے کے اعتراف پر ہم نے عالمی سطح پر ثبوت پیش کئے ہیں۔ نیشنل ایکشن پلان پر کس قدر عملدرآمد ہوا اس کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے۔

نادرا سے جعلی شناختی کارڈ جاری کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ میڈیا ہاؤسز اپنے صحافیوں کی انشورنس کرائیں۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے رکن غوث بخش مہر نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف مشترکہ اور متفقہ لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا اور جنگی بنیادوں پر آگے بڑھنا ہوگا۔ جمشید احمد دستی نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات کو دشمن ممالک کی سازشوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

اس معاملے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا جائے۔ میجر (ر) طاہر اقبال نے کہا کہ جو لوگ شہید ہوئے ہیں اﷲ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ بلوچستان کے صف اول کے وکلاء اس دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ مسجد نبوی کے قریب دھماکے ہوئے ہیں، پوری امت مسلمہ کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ علماء کرام مدارس میں پڑھنے والے بچوں کو یہ باور کرائیں کہ وہ قومی دھارے میں آئیں تاکہ دہشتگرد ان کو اپنا آلہ کار نہ بناسکیں۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے ٹھوس تجاویز دی جائیں۔ صرف پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے۔عالیہ کامران نے کہا کہ منصوبہ بندی کے تحت وکلاء برادری کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہوا اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ نذیر احمد بوگھیو نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے معاملے پر ان کیمرہ اجلاس طلب کر ے اور ارکان پارلیمنٹ کو بریفنگ دی جائے۔ محمد جمال الدین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان پر حملے ہوئے۔

مولانا حسن جان کو شہید کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی کارروائی میں مدارس کے خلاف ثبوت ہیں تو سامنے لائے جائیں۔ پاکستان اور افغانستان کو قریب لانے کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔ افغان مہاجرین کو مہمان سمجھا جائے، ان کو دشمن تصور نہ کیا جائے۔ نسیمہ حفیظ نے کہا کہ خارجہ پالیسی میں پائے جانے والے سقم کی وجہ سے ہمیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔

خارجہ پالیسی پر نظرثانی کی جائے۔ ہمیں سچ کا سامنا کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ مولانا امیر زمان نے کہا کہ کوئٹہ میں دلخراش واقعہ رونما ہوا۔ کوئٹہ میں آئے روز واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ صوبائی انتظامیہ نے ان کا نوٹس نہیں لیا جس کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔ پارلیمنٹ کا ان کیمرہ اجلاس طلب کرکے ہمیں اصل حقائق بتائے جائیں۔ آسیہ ناصر نے بھی کوئٹہ واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ وکلاء کی اعلیٰ قیادت کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ختم کردیا گیا۔

پاک فوج پر ہمیں اعتماد ہے۔ ان واقعات کو مذہبی فرقہ واریت سے جوڑنے کی بجائے دیگر پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر سوچنے کی بھی ضرورت ہے۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ سارک وزراء داخلہ کانفرنس میں وزیر داخلہ نے پاکستان کا مضبوط موقف پیش کیا ہے۔ وزیر داخلہ پارلیمنٹ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیں۔ سید نوید قمر نے بھی وزیر داخلہ سے مطالبہ کیا کہ وہ سارک وزراء داخلہ کانفرنس کے حوالے سے پارلیمنٹ میں پالیسی بیان دیں۔