ملک میں فرقہ واریت ،لسانیت اور گروہی سطح پر مفادات کے خاتمے کے لیے اجتماعی سوچ اپناناہوگی ،،معراج محمد ایک عہد ساز شخصیت تھے ، ان کی باتوں پر عمل کرلیا جاتا تو ملک میں ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی،ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کے لیے لوگوں کے حقوق او ر ان کے مکالمہ کا حق تسلیم کرنا ہی ضروری ہے ،مکالمہ ہی تمام مسائل کا حل ہے

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشیدکا تعزیتی ریفرنس سے خطاب

بدھ 3 اگست 2016 22:42

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔3 اگست ۔2016ء) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات سینیٹر پرویز رشید نے کہا ہے کہ ملک میں فرقہ واریت ،لسانیت اور گروہی سطح پر مفادات کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اجتماعی سوچ کو اختیار کریں،معراج محمد ایک عہد ساز شخصیت تھے اگر ان کی باتوں پر عمل کرلیا جاتا تو ملک میں ضرب عضب کی ضرورت نہ پڑتی،ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کے حقوق او ر ان کے مکالمہ کے حق کو تسلیم کیا جائے ،مکالمہ ہی تمام مسائل کا حل ہے،وہ بدھ کو پریس کلب میں احباب معراج محمد خان کی جانب سے عظیم ترقی پسند سیاسی و نظریاتی رہنما معراج محمد خان کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس بعنوان یادیں اور جدوجہد سے خطاب کررہے تھے،اس موقع پرمختلف سیاسی جماعتوں ،مزدور رہنماؤں،تجزیہ نگار،دانشوروں اور ترقی پسند نظریات سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے شرکت کی،تعزیتی ریفرنس سے نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک ، جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن، صحافی عمر بلوچ،تجزیہ کار مقتدا منصور،مزدور رہنما منظور رضی،قوم پرست رہنماعبدالخالق جونیجو،عوامی مرکز پارٹی کے یوسف مستی خان ،تجزیہ کار مجاہد بریلوی،سی پی ایل سی کے سابق چیف و صنعت کار حاجی ناظم، انیس باقر،پیپلز پارٹی کے رہنما راشد حسین ربانی ، آرٹس کونسل کے سابق صدر احمد شاہ، سماجی رہنماشیما کرمانی و دیگر نے بھی خطاب کیا،پرویز رشید نے کہا کہ معراج محمد خان صرف شخصیت نہیں، بلکہ عہد کے ترجمان تھے ،ایک ایسا عہد جو پاکستان میں جبر و پابندیوں اور سیاہ دور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اس عہد میں بہت سے ایسے سیاسی کارکن تھے جنھوں نے جمہوریت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی ان آوازوں میں سب سے طاقت ور آواز اور جدو جہد معراج محمد خان کی تھی ۔

(جاری ہے)

معراج محمد خان ایک ملنسار شخصیت تھے،وہ جبر کے خلاف للکار کی حیثیت رکھتے تھے،1970میں مارشل کے خلاف آواز بلند کرنے پر انھیں فوجی عدالت سے چھ سال سزا ہوئی ،بھٹو کے دور میں وہ وزیر رہے ،ان کے پروٹوکول میں وہ شخص شامل تھا جس نے ان کے خلاف عدالت میں گواہی تھی اس پولیس افسر کو دیکھ کر معراج محمد خان مسکرائے اور کہا کہ میرے ہاتھوں کی لکیروں میں لکھا ہے کہ پولیس یاتو میرے آگے یا پیچھے ہوگی۔

اس پولیس افسر کو کچھ کہنے کے بجائے انھوں نے اس کی خیریت دریافت کی یہ ان کی اعلیٰ شخصیت ہونے کی دلیل ہے ۔معراج محمد خان ہمارا اثاثہ تھے ،وہ آج ہم میں نہیں لیکن ان کی جدو جہد اور اصول ہمیشہ ہمارے ساتھ رہینگے۔پرویز رشید نے کہا کہ کچھ لوگوں نے خطے کے امن کو ہائی جیک کیا ہو اہے، جن سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے ہمیں اپنی مسلح طاقت استعمال کرنا پڑ رہی ہے جن سے پاکستان کی درسگاہیں محفوظ ہیں اور نہ کوئی اور چیز محفوظ ہے ، اگر 1970میں معراج محمد خان کو پابند سلاسل کرنے کے بجائے ان کی بات مان لی جاتی تو آج پاکستان میں امن تباہ کرنے والوں سے جان چھڑوانے کے لیے مسلح طاقت استعمال نہ کرنا پڑتی۔

ان کا تو صرف ایک ہی مطالبہ تھا کہ بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کیا جائے ،انھوں نے کہا کہ علم کی روشنی کو پھیلانے میں معراج محمد خان نے اہم کردار ادا کیا، وہ مکالمہ کے آدمی تھے اور یکطرفہ مکالمہ نہیں کرتے تھے،وہ دوسرو ں کو نقطہ نظر سنتے اوراپنا نقطہ نظر بیان کرتے ،ہر مسئلہ کا حل مکالمہ سے چاہتے تھے ،اگر ان کی بات کو درست طریقے سے سنا جاتا تو آج کچھ لوگوں سے جان چھڑانے کے لیے ضرب عضب نہ لانی پڑتی۔

انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان کی دوسری تھی کہ ملک میں جمہوریت اور عوام کی طاقت جو تسلیم کیا جائے ، انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان کی زندگی کی جدو جہد کا 75فیصد حصہ آمریت کے خلاف تھا،وہ منتخب حکومتوں کے خلاف بھی آواز بلند کرتے تھے اور اپنا نقطہ نظر پیش کرتے تھے، معراج محمد خان کو بھٹو کے دور میں کبھی مجمع میسر نہیں آیا لیکن آج تاریخ نے ثابت کردیا کہ پورا پاکستان معراج محمد خان کی زندگی کو یاد کر رہا ہے ،انھوں نے کہا کہ آج ملک میں جمہوریت کے حق کو تسلیم کیا جائے ،درسگاہوں میں علم کی روشنی کو عام کیا جائے ،انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان انسانو ں کی تقسیم کے قائل نہیں تھے خواہ تقسیم مذہب ،لسانیت ، قومیت یا کسی اور بنیاد پر ہو۔

وہ اس بات کے قائل تھے جو شخص حق حلا ل کماتا ہے اس کی محنت پر کسی دوسرے کا حق نہیں ۔ان کی کچھ باتیں تو مان لی گئیں لیکن کچھ ابھی منوانا باقی ہیں ، جو باتیں رہ گئی ہیں ہمیں اس کے لیے مل کر جدو جہد کرنے کی ضرورت ہے۔جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن نے کہا کہ معاشرے کے مسائل نظریاتی تحریکیں ہی حل کرتی ہیں جب کسی معاشرے میں نظریاتی تحریکیں ہواؤں تحلیل ہوجائیں تو بہت مشکل ہے کہ وہ معاشرہ ترقی کی طرف گامزن ہوسکے۔

معراج محمد خان نے اکیلے تو بہت جدو جہد کی اور جوکرسکتے تھے وہ کیا، کراچی میں ایم کیو ایم کا وجود بہت بڑے خلاء کو پر کرنے کے لیے ہے،ایم کیو ایم کو یہ خلاء پر کرنے کا موقع کسی اور نے نہیں بلکہ نظریاتی لوگوں نے دیا ہے، معراج محمد خان میرے بہت اچھے دوست تھے،ہمارے دور میں بھی مختلف سیاسی قوتوں کے درمیان نظریاتی اختلافات ہوتے تھے لیکن یہ اختلافات کسی حد تک ہوتے تھے اور شام کو ایک میر پر بیٹھ کر چائے بھی پیتے تھے ۔

انھوں نے معراج محمد خان کی خدمات پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا۔نیشنل پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک نے کہا کہ معراج محمد خان ترقی پسند سوچ کے حامل تھے ،انھوں نے آمریت کے خلاف جو جدوجہد کی اسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، کراچی کے ترقی پسند کارکن عوام کو ایک جگہ پر جمع کرنے کے مشن پر لگ جائیں تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

آج ملک کو حقیقی جمہوریت کی ضرورت ہے قوم اور عوام دوست قوتیں اپنا کردار ادا کریں۔تجزیہ کار مقتدا منصور نے کہا کہ 1960سے 1990تک معراج محمد خان نے ملک کی سیاست میں نا انصافیوں کے لیے جدو جہد کرتے رہے ، آخری عمر بیماری میں گزاری لیکن پوری عمر ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کے لیے اہم کردار ادا کیا،وہ سیاست کو عبادت سمجھتے تھے اور جب انھیں پیپلز پارٹی میں شامل ہوتے وقت یہ کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو جاگیردار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں تو آپ ان کے ساتھ کس طرح چلیں گے ۔

؟تو انھوں نے کہا کہ یہ لازمی نہیں کہ ہر جاگیردار برا ہو۔سینئر صحافی عمر بلوچ نے کہا کہ معراج محمد خان جمہوریت کے حامی تھے ،وہ چاہتے تھے کہ ملک میں آمر یت نہیں بلکہ جمہوریت عوام کے پاس ہو،انھوں نے ہمیشہ ملک میں جمہوریت کی بالا دستی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔مزدور رہنما منظور رضی نے کہا کہ معراج محمد خان ہمیشہ غریبوں ، مزدوروں اور مظلوموں کے حقوق کے لیے جدو جہد کرتے رہے ،وہ پیپلز پارٹی کے بانیوں میں سے تھے۔

انکی جدو جہد ہمیشہ یاد رکھی جائیگی۔قوم پرست رہنماعبدالخالق جونیجونے کہا کہ معراج محمد خان کی زندگی کے کئی پہلوں ہیں ،ان کی کئی باتوں سے لوگوں کو اختلاف بھی تھا اور کئی باتوں کی لوگ حمایت بھی کرتے تھے لیکن ایک بات پر سب متفق ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ اور آمریت کے ہمیشہ خلاف رہے اور مشرقی پاکستان پر فوجی کاروائی کی مخالفت کی تھی۔دنیا میں کچھ نہیں بدلا صرف سوویت یونین نہیں ہے باقی سب ویسا ہی ہے۔

ان کی مزدور دوستی کی جدو جہد کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔تجزیہ کار مجاہد بریلوی نے کہا کہ معراج محمد خان کی وفات نے پرانی یادوں کو تازہ کردیا ہے،ان کی وفات نے بائیں بازو کی تحریک یتیم ہوگئی ہے۔سی پی ایل سی کے سابق چیف و صنعت کار حاجی ناظم نے کہا کہ معراج محمد خان نے ہمیشہ مزدروں کے حقوق کے لیے جدو جہد کی اور مزدروں کو انکی شناخت دلائی۔

معراج محمد خان کے دوست انیس باقر نے کہا کہ یہی بہت ہے کہ معراج محمد خان کی وفات کے بعد میں زندہ ہوں ،افغانستان کے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اﷲ معراج محمد خان کی بہت عزت کرتے تھے اور افغانستان کی ترقی کے لیے ہمیشہ ان سے مشاورت کرتے تھے۔معراج محمد خان دور اندیش تھے اور مستقبل کے حالات کا بہتر تجزیہ کرتے تھے، لوگوں کو فن خطابت بھی سکھاتے تھے۔

پیپلز پارٹی کے رہنما راشد حسین ربانی نے کہا کہ معراج محمد خان نے ہمیشہ سامراجی قوتوں کے سامنے سییہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹے رہے،انھوں نے شہید ذو الفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر غریبوں کے حقوق کے لیے جدو جہد کی ،ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو جاری رکھیں۔ملک کو اس وقت دہشتگردی اور انتہا پسندی سے بچانے کے لیے تمام قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہوگا۔

آرٹس کونسل کے سابق صدر احمد شاہ نے کہا کہ معراج محمد خان غریبوں اور مزدوروں کے لیے امید کی کرن تھے ،میں نے ان کے ساتھ کام تو نہیں کیا لیکن ان کے نظریات سے متفق ہوں،انھوں نے تجویز دی کہ معراج محمد خان کے نظریات کو موجودہ حالات میں نئی نسل تک پہنچانے کے لیے ایک ویب سائٹ بنائی جائے ۔ سماجی رہنماشیما کرمانی نے کہا کہ شہر میں بے امنی کی صورتحال کے خلاف ایک منظم تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے 6اگست کو کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرہ کیا جائیگا۔سینئر صحافی حفاظ الرحمن کی تحریر کو مومن خان مومن نے پڑھ کر سنایا،انھوں نے کہ اپنی تقریر میں معراج محمد خان کی زندگی اہم یادیں شرکاء کو بتائیں۔انھوں نے کہا کہ معراج محمد خان ایک عظیم سیاسی و نظریاتی رہنما تھے ،ان کی جدو جہد ہمیشہ آمریت کے خلاف رہیں اور انسانی حقوق کے لیے لازوال جدوجہد کی ۔معراج محمد خان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کی جدو جہد کو آگے بڑھایا جائے۔عوامی مرکز پارٹی کے یوسف مستی خان نے کہا کہ معراج محمد خان کہتے تھے جو کچھ افغانستان میں ہورہا ہے اگر ہم نے اپنی افغان پالیسی کو تبدیل نہیں کیا تو اس کے نتائج ہمیں بھگتنا پریں گے ان کی یہ بات سچ ہورہی ہے۔