دعوت ملنے پر افغان طالبان کا دورہ چین،مذاکرات کیئے

مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے،طالبان رہنماء چین قابض فوجوں سے آزادی کے لیے ہماری مدد کرے،ہم چاہتے ہیں اس مسئلے کو دنیا کے مختلف فورمز پر اٹھایا جائے،برطانوی خبررساں ادارے سے گفتگو

اتوار 31 جولائی 2016 11:47

دعوت ملنے پر افغان طالبان کا دورہ چین،مذاکرات کیئے

کابل(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔31 جولائی ۔2016ء) افغان طالبان کے ایک وفد نے ایک مرتبہ پھر چین کا دورہ کیا ہے۔برطانوی خبررساں ادارے کے مطابق مغرب کی حمایت یافتہ کابل حکومت کے خلاف لڑنے والے طالبان کے اس دورے کا مقصد افغانستان کی موجودہ صورتحال سے متعلق مذاکرات کرنا تھے۔ افغان طالبان کے ایک وفد نے عباس ستانکزئی کی قیادت میں رواں ماہ کے آغاز پر چین کا دورہ کیا ۔

عباس ستانکزئی قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ہیں۔ طالبان کے ایک سینئر رہنما کے حوالے سے بتایا گیا کہ یہ وفد اٹھارہ سے بائیس جولائی تک دارالحکومت بیجنگ میں رہا جبکہ طالبان کو اس دورے کی دعوت چینی حکومت کی طرف سے دی گئی تھی۔طالبان کے اس سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہاکہ مختلف ممالک کے ساتھ ہمارے بہت ہی اچھے تعلقات ہیں اور چین ان میں سے ایک ہے۔

(جاری ہے)

اس طالبان کمانڈر کا مزید کہنا تھاکہ ہم نے چینی حکام کو جارحیت پسند اور قابض فوجوں کے بارے میں اور ان کی طرف سے افغان عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق بتایا ہے۔اس دورے کے مقصد کے بارے میں اس لیڈر کا مزید کہنا تھاکہ ہم چاہتے ہیں کی چینی قیادت ہماری مدد کرے اور اس مسئلے کو دنیا کے مختلف فورمز پر اٹھایا جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ چین قابض فوجوں سے آزادی کے لیے ہماری مدد کرے۔

اسی طرح طالبان کے ایک دوسرے سینئر رہنما نے بھی ان خبروں کی تصدیق کی ۔ اس طالبان لیڈر کا بھی کہنا تھا کہ اس کا نام شائع نہ کیا جائے کیوں کہ ابھی تک قطر میں ان کے سیاسی دفتر کی جانب سے انہیں باقاعدہ طور پر میڈیا سے گفتگو کی اجازت نہیں ملی ہے۔ دوسری جانب چین کی وزارت خارجہ نے بھی ابھی تک اس ملاقات کی تصدیق نہیں کی ہے۔پاکستان، امریکا، چین اور افغانستان اس چہار فریقی گروپ کا حصہ ہیں، جس نے رواں برس کے آغاز پر طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں۔

لیکن ان کوششوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا تھا اور امن مذاکرات کا سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا تھا، جب طالبان کے سابق سربراہ ملا محمد اختر منصور کو مبینہ طور پر ایران سے پاکستان آتے ہوئے امریکا نے ایک ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کر دیا تھا۔دوسری جانب طالبان اس کوشش میں بھی ہیں کہ وہ افغانستان کے ہمسایہ ملکوں کو یہ یقین دلائیں کہ وہ ان کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔ ماضی میں طالبان یہ بیان بھی جاری کر چکے ہیں کہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

متعلقہ عنوان :