مردم شماری ہرصورت کراناہوگی،رہنماء پشتونخواء میپ

ملک کے تمام وسائل کی تقسیم مردم شماری ہی کے ذریعے ہوگی اورمردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے پشتون عوام سب سے زیادہ متاثرہورہے ہیں،سینیٹرعثمان کاکڑ،عبیداللہ جان بابت،نصراللہ خان زیرے کا کان مہترزئی میں بڑے عوامی جلسہ عام سے خطاب

ہفتہ 30 جولائی 2016 22:44

کان مہترزئی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔30 جولائی ۔2016ء ) مردم شماری ہر صورت کرانا ہوگی کیونکہ مردم شماری ہی کے ذریعے ملک کے وسائل کی تقسیم ہوگی اور مردم شماری نہ ہونے کی وجہ سے پشتون عوام سب سے زیادہ متاثرہورہے ہیں ، پشتون وسائل پر تمام پشتون عوام اور پشتون سیاسی جمہوری اور مذہبی پارٹیوں کو ایک نقطے پرمتفق ہونا ہوگا، مغربی کاریڈور کے کام پر فوری طور پر کام شروع کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، پشتونخوامیپ کے چےئرمین نے انٹرویو میں جس بات کی نشاندہی کی تھی وہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس طرح سندھ بمبئی کا حصہ تھا اور آج کا بنگلہ دیش پاکستان کا؟،ملک میں انٹیلی جنس ادارے اور اس کی پروردہ پارٹیاں جمہوریت کی بساط لپیٹنے اور صدارتی طرز حکومت لانے کی سازشوں میں مصروف ہیں جس کی پشتونخوامیپ اور دیگر جمہوری سیاسی پارٹیاں مل کر مقابلہ کریگی ، ملک اور خطے میں جاری دہشتگردی آمر قوتوں امریکہ ، یورپ ، سعودی عرب اور دیگر رجعتی ممالک کی غلط پالیسیوں کا مکافات عمل ہے۔

(جاری ہے)

صوبے میں متبادل حکومت چلانے اور عوام کے منتخب پارلیمنٹ کی بالادستی تسلیم نہیں کی جارہی ،پشتونخوامیپ کی موجودہ صوبائی حکومت میں عوام کیلئے بہت سارے ترقیاتی کاموں کا جھال بچھایا ہے ، ، پشتون عوام کے ہزاروں شناختی کارڈ غیر قانونی طور پر بلاک کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پشتونخوامیپ کے مرکزی سیکرٹری صوبائی صدر سینیٹر عثمان خان کاکڑ ، مرکزی سیکرٹری وصوبائی مشیر جنگلات ، جنگلی حیات ،لائیو سٹاک عبید اللہ جان بابت ، صوبائی ڈپٹی سیکرٹری رکن صوبائی اسمبلی نصراللہ خان زیرے نے کان مہترزئی میں بڑے عوامی جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

جلسہ عام سے پارٹی ضلع قلعہ سیف اللہ کے سیکرٹری چےئرمین اللہ نور خان ،ضلع معاون سیکرٹریوں حاجی دارا خان جوگیزئی ،عنایت اللہ خان ،علاقائی سیکرٹری حبیب اللہ نے خطاب کیا۔ جبکہ سٹیج سیکرٹری کے فرائض عبدالرازق نے سرانجام دےئے ۔ اس سے پہلے پارٹی رہنماء کان مہترزئی پہنچے تو تو پارٹی رہنماؤں کا شاندار اور پرتپاک استقبال کیا گیا ،شہر سے دور مین ہائی وے پر سینکڑوں موٹر سائیکلوں ، گاڑیوں کے بڑے جلو س کی شکل میں انہیں جلسہ گاہ لایا گیا۔

اس موقع پر کان مہترزئی زئی ،سوری مہترزئی کے مختلف علاقوں سے اہم سیاسی وعوامی شخصیات جس میں امین اللہ ،نعمت اللہ ، عزیز الرحمن ،گل حبیب ، نجیب اللہ کی سربراہی میں خاندانوں سمیت درجنوں افراد نے پشتونخوامیپ میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ پارٹی رہنماؤں نے کامیاب جلسہ عام اور شاندار جلوس پر پارٹی کان مہترزئی اور گردنواح کے علاقوں کے عوام کا شکریہ اور مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا جلسہ عام اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ پشتونخوامیپ کے حکومتی سطح پر اقدامات سے مطمئن ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ فرد کا فرد پر ، طبقہ کا طبقہ پر اور قوم کا کسی قوم پر ظلم جبر اور استحصال کیخلاف ہے اور خان شہید عبدالصمد خا ن اچکزئی نے اسی مقاصد کیلئے تاریخی جدوجہد کی ۔انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جبر کا نظام آج بھی مسلط ہے اور پشتون عوام سمیت دیگر محکوم قوموں کی برابری کو تسلیم نہیں کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی فرنگی استعمار کی تقسیم کو برقرار رکھ کر ملک کے اندر پشتونخوا وطن مختلف انتظامی یونٹوں میں منقسم ہے ۔

پشتونخوامیپ خیبر پشتونخوا ، میانوالی ،اٹک اور جنوبی پشتونخوا کی ملی وحدت چاہتی ہے اور ملک اور صوبے میں برابری کیلئے جدوجہد کررہی ہے ۔ ملک کے اندر پشتونستان کے نام سے متحدہ قومی صوبہ ہماری جدوجہد کامرکز اور محور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں آج بھی انٹیلی جنس ادارے اور اس کے پروردہ عناصر جمہوری کی بساط لپیٹنے اور ملک میں صدارتی طرز حکومت قائم کرنے کی خواہش مند ہے مگر پشتونخوامیپ اور دیگر جمہوری سیاسی پارٹیاں اس عوام دشمن اور جمہوریت دشمن عمل کے خلاف سیسہ پلائی دیواربن کر کھڑی ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی چےئرمین جناب محمود خان اچکزئی نے وائس آف امریکہ کو اپنے تفصیلی انٹرویو میں ملک میں پشتونوں کے ساتھ جاری ناروا طرز عمل ان کے ہزاروں کی تعداد میں کمپیوٹرائز شناختی کارڈز بلاک کرنے اور پنجاب ، سندھ اور دیگر صوبوں وشہروں میں آباد پشتون عوام کو تنگ کرنے پنجاب وسندھ کے جیلوں میں ڈالنے اور دیگر تاریخی حقائق کے حوالے سے انٹرویو دیا جس میں انہوں نے کہا کہ پشاور 1820ء تک افغانستان کا سرمائی دارالخلافہ تھا اور اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ افغان کھڈوال عوام جو کہ پنجاب ، سندھ اور دیگر شہروں میں آباد ہے اگر وہاں کے لوگ ان سے تنگ ہے تو انہیں پشاور اور کوئٹہ بھیجا جائے مگر افسوس سے کہنا پڑ ھ رہا ہے کہ اس تفصیلی انٹرویو کو سنے بغیر عقل کے اندھوں نے اس کی غلط تشریح کی ۔

پارٹی رہنماؤں نے کہا کہ کیا یہ تاریخی حقیقت نہیں کہ کبھی سندھ صوبہ بھی بمبئی کا حصہ ہوا کرتا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ موجودہ صوبہ پنجاب اور چندگی گڑھ ایک ساتھ ہوا کرتے تھے اور اسی طرح آج کا بنگلہ دیش کبھی اس ملک کا حصہ تھا ۔ انہوں نے کہا کہ تمام پشتون عوام کے قوم کے لحاظ سے افغان ہے جس پر ہمیں فخر ہے ۔انہوں نے کہا کہ آج بارڈر مینجمنٹ کے نام پر ہمارے عوام پر پابندیاں لگائی جارہی ہے کیونکہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف پشتون غیور ملت کے مختلف عوام اور قبیلے آباد ہے جن کی معاشی ، معاشراتی ، زندگی ڈیورنڈ لائن کے آر پار منقسم ہوگی کیونکہ ایسے بھی لوگ ہے جن کی زرعی زمینیں اس طرف ہے اور بہت سارے ایسے گھرانے ہیں جن کے مال مویشی دونوں پار چراہے جاتے ہیں ایسے گھرانے بھی ہیں جن کے گھر کا دروازاہ پاکستان میں ہے اور باقی حصہ افغانستان میں یعنی آدھا رگھرانہ ملک اور آدھا افغانستان میں ہے ۔

اب بارڈر مینجمنٹ کے نام پر ان پر پابندیاں لگا کر ان کی تمام معاشی معاشراتی زندگی کو تباہ وبرباد کیا جارہا ہے۔ اگر دہشتگردی کو ختم کرنا ہے تو دہشتگردوں کے اڈوں ، مراکز انکی کمین گاہوں اور ان کو ہر قسم کی تعاون کا خاتمہ کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسائل پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے لہٰذا انہیں بیٹھ کر مسائل حل کرنا ہونگے ۔

انہوں نے کہا کہ آج ملک خطہ او ر تمام دنیا میں دہشتگردی دراصل ہمارے ملک کے آمر قوتوں امریکہ ، یورپ ، سعودی عرب اور دیگر رجعتی ممالک کی وہ استعماری پالیسیاں ہے جنہوں نے افغانستان میں دہشتگردی ، دہشتگرد تنظیموں کو ہر طرح سے پالا اور ان کی تربیت کی اور آج یہ تمام دہشتگردی اس مکافات عمل کا نتیجہ ہے ۔ اس وقت تک دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی جب تک ان دہشتگردوں اوران کے سہولت کاروں کیخلاف حقیقی کارروائی نہ کی جائے ۔

مقررین نے کہا کہ پاناما لیکس پر پشتونخوامیپ کے سوا تمام پارٹیاں ڈرامہ بازیاں کررہی ہے کرپشن کیخلاف کوئی کمیشن بنانے کیلئے تیار نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر پشتون عوام ہوئے ہیں پارٹی چےئرمین محمود خان اچکزئی پر مسلسل 10سال حملے ہوتے رہے جس میں سعید خان شہید سمیت پارٹی کے 100کے قریب کارکن شہید کےئے گئے اسی طرح مولانا فضل الرحمن ، اسفند یار ، آفتاب احمد خان شیر پاؤ ، مرحوم قاضی حسین احمد پر حملے ہوئے سمیت فاٹا میں1500قبائلی اور اولسی مشران کو شہید کےئے گئے۔

انہوں نے تمام پشتون سیاسی قیادت جس بھی پارٹی میں ہو ان سے اپیل کی کہ وہ پشتون عوام کے مسائل کے ایجنڈے پر متفق ہو کر جدوجہد کرے ۔ مقررین نے کہا کہ مردم شماری ملک اور پشتون عوام کی اولین ضرورت ہے مگر افسوس سے کہنا پڑ ھ رہا ہے کہ پنجاب اور ہمارے بلوچ بھائی مردم شماری کے اس لےئے خلاف ہے کہ اگر صحیح اور حقیقی مردم شماری کی جائے تو پشتون عوام کی آبادی بڑھ جائیگی اور پشتوبحیثیت زبان ملک کی سب سے بڑی زبان قرار پائیگی اور اسی طرح وسائل کی تقسیم بھی اسی بنیاد پر ہوگی ۔

انہوں نے کہا کہ چند عناصر مہاجرین کا بہانہ بنا مردم شمار ی روکنا چاہتے ہیں مگر 1998ء میں جب سردار اختر مینگل وزیر اعلیٰ تھے اس وقت مہاجرین کی تعداد لاکھوں میں تھی اور آج اقوام متحدہ ، یواین ایچ سی آر اور ملکی اداروں کے مطابق مہاجرین عوام 71فیصد واپس جاچکے ہیں اور اس وقت ان اداروں کی رپورٹ کے مطابق ملک میں صرف 3لاکھ 30ہزارمہاجرین عوام موجود ہے ۔

لہٰذا یہ صرف بہانے اور حیلے ہے کہ مردم شماری کو کس طرح روکا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ پشتونخوامیپ کے ممبران اسمبلی وسینیٹ کے اراکین کی کوششوں کے بدولت وہ ہمارا قومی مطالبہ چشمہ ڈیرہ اسماعیل تا ژوب ٹرانسمیشن لائن کیلئے اس سال کے بجٹ میں7ارب روپے رکھے گئے ہیں، اور اسی طرح پنجاب کے مختلف یونیورسٹی اور تعلیمی اداروں میں ہمارے طلباء وطالبات کی نشستو ں میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے اور اسی طرح ڈیمز کی تعمیر کیلئے مختلف علاقوں میں تجویز رکھی گئی ہے ۔

انہوں نے کہاکہ کان مہترزئی میں گرڈسٹیشن اور کالج منظور ہوئی ہے سکولوں کی اپ گریڈیشن ، ڈیموں کی تعمیر اور اس کے علاوہ انسانی زندگی کے دیگر ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کچلاک ،کان مہترزئی ، قلعہ سیف اللہ کی شاہراہ کو دو راہیں کرنے کی فائل پشتونخوامیپ کی کوششوں سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ تک پہنچا دی گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ صوبے میں گزشتہ 3سالوں میں امن وامان کی صورتحال میں حد درجہ بہترئی آئی ہے اسی طرح تعلیم کے بجٹ کو 2فیصد سے بڑھا کر 26فیصد تک پہنچایا گیا اور مختلف ضلعوں میں میڈیکل کالجز ، یونیورسٹیز ، پرائمری سکولوں کی تعمیر ، پرائمری کی اپ گریڈیشن کرکے مڈل اور مڈل کو ہائی سکول کا درجہ دیا گیا ۔ کم وبیش 25ہزار مستحق طلباء وطالبات کو سکالر شپ کی مد میں کروڑوں روپے صاف شفاف طور پر تقسیم کےئے گئے ہیں کھلاڑیوں اور سپورٹس کلبوں میں سپورٹس فنڈز جبکہ نادار مریضوں میں علاج ومعالجے کیلئے میڈیکل فنڈز تقسیم کی گئی جبکہ اس کے برعکس ماضی میں حکومتوں میں رہنے والی جماعتوں نے کرپشن ، لوٹ مار ، اقرباء پروری کے ایسا سیاہ کارنامے انجام دےئے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ۔

ان آدھ درجن وزراء اور اراکین اسمبلی کرپشن اور لوٹ کی وجہ سے سزا پا چکے ہیں۔

متعلقہ عنوان :