ملک میں انصاف صرف اشرافیہ کی میراث بن گیا ہے، آمنہ مسعود جنجوعہ

کشمیر میں انسانی حقوقی کی پامالیوں پر چیخنے والے حکمران اپنے باسیوں کے حقوق سے بے خبر کیوں ہیں ؟ گیارہ سال سے انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہی ہوں ،اشرافیہ کے بچے صحیح سلامت گھروں کو واپس آجاتے ہیں مگر سالوں سے لاپتہ افراد کی کوئی خبر گیری نہیں ہوئی ، مسعود جنجوعہ کی گمشدگی کے 11 سال مکمل ہونے پر صحافیوں سے گفتگو

ہفتہ 30 جولائی 2016 19:57

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔30 جولائی ۔2016ء) ڈیفینس آف ہیومن رائیٹس کی چئیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا ہے کہ پاکستان کے حکمران خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہتے ہیں جبکہ یہاں انصاف تو صرف اشرافیہ کی میراث بن گیا ہے،کشمیر میں انسانی حقوقی کی پامالیوں پر چیخنے والے حکمران اپنے باسیوں کے حقوق سے بے خبر کیوں ہیں ؟،گیارہ سال سے انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہی ہوں ،اشرافیہ کے بچے صحیح سلامت گھروں کو واپس آجاتے ہیں مگر سالوں سے لاپتہ افراد کی کوئی خبر گیری نہیں ہوئی ۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہفتہ کے روز اپنے شوہر مسعود جنجوعہ کی گمشدگی کے 11 سال مکمل ہونے پر اسلام آباد پریس کلب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔آمنہ مسعود جنجوعہ نے اپنی انتھک جد و جہد بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں انصاف تو صرف اشرافیہ کی میراث بن گیا ہے۔

(جاری ہے)

بد قسمتی سے عام عوام اور انصاف کا دور دور تک کوئی رابطہ نظر نہیں آتا۔

مسعود جنجوعہ کو انکے دوست فیصل فراز کے ہمراہ 30 جولائی 2005 کو جبری لا پتہ کیا گیا تب ایک خاتونِ خانہ نے اس ظالم سماج کے سامنے چْپ سادھنے کے بجائے سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑے رہنے کا عزم کیا اور آج 11 سال گزر جانے کے باوجود میں اپنے شوہر کی بازیابی کے لیے پْر عزم ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ اس موقع ایک دفعہ پھر پر صدرِ پاکستان، وزیر اعظم ، چیف جسٹس پاکستان اور چیف آف آرمی سٹاف راحیل شریف کو خطوط ارسال کئے گئے ہیں جن میں مسعود جنجوعہ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

امیر کے لیے انصاف اور غریب کے لیے انصاف کا انتظار حال ہی میں واقع ہونے والی بازیابیوں سے صاف ظاہر ہے جہاں ایک سابق وزیر اعظم، سابق گورنر اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے تو بازیاب کروائے جا سکتے ہیں مگر عام عوام کے بیٹے جبری لا پتہ کر دیئے جاتے ہیں ان کا کوئی پْرسانِ حال نہیں ہے۔ حکومت پاکستان نے سْپریم کورٹ کے حکم پر لا پتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک کمیشن تو تشکیل دے دیا تھا مگر اتنے سال گزر جانے کے باوجود نہ تو تمام لاپتہ لوگ بازیاب ہوئے ہیں نہ شہریوں کو لا پتہ کرنے کا سلسلہ بند ہوا ہے۔

چئیر پرسن نے مزید کہا کہ گزشتہ 11 سالوں سے انصاف کی تلاش میں سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہوں۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے لیکر ایونِ اقتدار کے ہر دروازے پر دستک دی مگر مجھے انصاف نہیں دیا گیا۔ مجھ پر میرے بچوں پر ڈنڈے تک برسائے گئے میرے ساتھ کئی بوڑھی ماووٴں، معصوم بچوں، عورتوں پر آنسو گیس کی شیلنگ تک کی گئی۔۔ ہمارا جرم صرف اور صرف انصاف مانگنا تھا۔

کیا ملک عزیز میں انصاف مانگنے والی عام عوام کے ساتھ یہ ہی سلوک کیا جاتا ہے؟ کیا مجھے کوئی حق نہیں ہے کہ میں پوچھوں میرا شوہر کہاں ہے؟ میرے بچوں کا باپ کہاں ہے؟ مجھے اور میرے معصوم بچوں کو آخر کس بات کی سزا دی جا رہی ہے؟ کیا اس ملک میں قانون ہے بھی؟؟؟ اْنھوں نے کہا کہ 30 جولائی کو ہماری زندگی کا سیاہ دن بنا دیا گیا ہے۔ دوسری طرف مسعود جنجوعہ کی جبری گمشدگی کے گیارہ سال مکمل ہونے پر بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اظہار یکجہتی کی اور پاکستان کے سفارتخانوں کے سامنیمسعود جنجوعہ کی فوری بازیابی کے لیے مظاہرے کئے اور اس غیر انسانی عمل کی شدید مذمت کی اور حکومت پاکستان پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد مسعود جنجوعہ کو بخیر و عافیت بازیاب کروائیں۔

متعلقہ عنوان :