بیرسٹر حسنین علی مرزا کی جانب سے سید مراد علی شاہ کے حق میں ووٹ دینے کے بعد ضلع بدین کی سیاسی صورتحال میں ہلچل

مرزا خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان کوئی خاموش مفاہمت ہونے کی افواہیں ایک بار پھر گرم ہو گئیں

ہفتہ 30 جولائی 2016 17:48

پنگریو ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 جولائی ۔2016ء) سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے لئے ہونے والی ووٹنگ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سے سخت ناراض رہنما ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا کے ایم پی اے بیٹے بیرسٹر حسنین علی مرزا کی جانب سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار سید مراد علی شاہ کے حق میں ووٹ دینے کے بعد ضلع بدین کی سیاسی صورتحال میں ہلچل مچ گئی ہے اور مرزا خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت کے درمیان کوئی خاموش مفاہمت ہونے کی افواہیں ایک بار پھر گرم ہو گئی ہیں جبکہ بیرسٹر حسنین علی مرزا کی اچانک سندھ اسمبلی آمد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کر نے کا معاملہ عوامی سطح پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا ہے اور ہر جگہ پر یہ معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے ضلع بدین میں گشت کر نے والی افواہوں کے مطابق مرزا خاندان اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کافی حد تک ختم ہو گئے ہیں اور متنازعہ معاملات باہمی طور پر حل کر نے پر اتفاق ہو گیا ہے جس کے بعد ہی بیرسٹر حسنین علی مرزا نے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کیا ہے یہ افواہیں پھیلنے کے بعد ضلع بدین میں مرزا گروپ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے کیمپوں میں ملا جلا رد عمل پایا جاتا ہے فریقین کے کیمپوں کی نچلے درجے کی قیادت اور کارکن ان افواہوں کے درست ہونے کی دعائیں کر تے دکھائی دیتے ہیں جبکہ دونوں گروپوں کے بعض رہنما اس پیشرفت پر پریشان ہو گئے ہیں کیونکہ ان رہنماؤں کو دونوں گروپوں کے درمیان مفاہمت ہونے کی صورت میں اپنی موجودہ حیثیت ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے دونوں گروپوں کے درمیان مفاہمت کے حوالے سے مرزا گروپ کے کارکنوں اور مقامی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس مفاہمت کی صورت میں ضلع بدین کے عوام کو فائدہ پہنچے گا اور جبکہ دونوں گروپوں کے مایوس اور نظر انداز کارکنوں کی بھی وارثی ہوگی اور کارکنوں کے مسائل حل ہوں گے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں کی اکثریت بھی اس ڈویلپمنٹ پر خوش دکھائی دے رہی ہے اور ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ مرزا خاندان کی دوبارہ پارٹی میں واپسی اور سرگرم ہونے سے ضلع بدین میں پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر عوامی پارٹی بن جائے گی اور مخالفین کو اس ضلع میں جگہ بنانا بہت مشکل ہو جائے گی ان کارکنوں کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت اور مرزا خاندان کے درمیان اختلافات پیدا نہ ہوتے اور ڈاکٹر ذوالفقار علی مرزا گولارچی کی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار نواز چانڈیو کے مخالف مسلم لیگ ن کے امیدوار محمد اسماعیل راہو کی حمائت نہ کرتے تو صوبائی اسمبلی کی اس سیٹ پر پاکستان پیپلز پارٹی کو کبھی بھی شکست نہ ہوتی واضح رہے کہ ووٹنگ سے قبل میڈیا میں یہ افواہیں چل رہی تھیں کہ بیرسٹر حسنین علی مرزا وزرات اعلیٰ کے انتخاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیں گے تاہم ان کے اچانک سندھ اسمبلی پہنچنے اور سید مراد علی شاہ کو ووٹ دینے کے بعد ضلع بدین کی سیاسی صورتحال میں بھی ہلچل مچ گئی ہے اور جہاں دونوں فریقوں کے نچلے درجے کی قیادت اور کارکن اس صورتحال پر خوش دکھائی دے رہے ہیں وہیں پر فریقین کے کچھ مقامی رہنماؤں کے چہروں پر مایوسی اورتشویش کے آثار بھی نمایاں نظر آرہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :