ضلع صحبت پور اور ڈیرہ اللہ یار کے گردونواح میں روزانہ18سے20گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے ، اراکین اسمبلی

ہفتہ 30 جولائی 2016 16:48

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 جولائی ۔2016ء ) بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس ایک دن وقفہ کے بعد ہفتے کی صبح سپیکر راحیلہ حمید خان درانی کی صدارت میں شروع ہوا صوبائی وزراء نواب محمدخان شاہوانی ، سردار سرفراز چاکر ڈومکی، مشیر میر محمدخان لہڑی ، مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی میر اظہار کھوسہ ، غلام دستگیر بادینی ، حاجی اکبر آسکانی کی مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے مسلم لیگ(ن)کی رکن صوبائی اسمبلی محترمہ راحت جمالی نے کہا کہ ضلع صحبت پور اور ڈیرہ اللہ یار کے گردونواح میں روزانہ18سے20گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے اور ساتھ ہی بجلی کی وولٹیج بھی نہ ہونے کے برابر ہے مزید برآں میٹرریڈرز بجلی کی ریڈنگ لئے بغیر گھر بیٹھے بل بنا کر لوگوں کے گھر بھجوادیتے ہیں اس کے علاوہ اگر کوئی بھی ٹرانسفارمرجل جائے تو قریباً ایک ماہ کے بعد خرابی دور کی جاتی ہے جس کی وجہ سے مذکورہ علاقوں کے لوگوں کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہے قرار داد میں صوبائی حکومت سے سفارش کی گئی کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرکے صحبت پور اور ڈیرہ اللہ یار کے گردونواح میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرائے اور بلوں کی درستگی کو یقینی بنائے ۔

(جاری ہے)

قرار داد کی موزونیت پر اظہار خیال کرتے ہوئے راحت جمالی نے کہا کہ ہمارے علاقے میں18گھنٹوں تک لوڈشیڈنگ ہوتی ہے چونکہ یہ شالی کی بوائی کا سیزن ہے اور ہمارے علاقے میں اکثر یت غریب لوگوں کی ہے اس لئے انہیں اس حوالے سے بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں ایوان اس قرار داد کو منظور کرائے تاکہ لوڈشیڈنگ کاخاتمہ یقینی بنایا جائے ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے آغا سیدلیاقت نے کہا کہ یہ ایک اہم قرار داد ہے جسے پورے ایوان کی طرف سے مشترکہ قرار داد کی شکل دے کر اس میں بلوچستان کے تمام اضلاع کو شامل کیا جائے کیونکہ بجلی پورے صوبے کا مسئلہ ہے بجلی نہیں مل رہی ہے اور اس کی وجہ سے زراعت پر بہت منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ ہمارے صوبے کے ساتھ قصداً ایسا رویہ اختیار کیا گیا ہے بلوچستان کو پہلے تو بجلی نہیں ملتی جو ملتی ہے اس میں بھی وولٹیج کی کمی بیشی کا مسئلہ درپیش رہتا ہے کم وولٹیج کے ساتھ جو بجلی ملتی ہے اس کے ذریعے9سو فٹ سے پانی نہیں نکالاجاسکتا ۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان اس وقت جو بجلی پیدا کررہا ہے اگر وہ اسے ملے تو اس کی ضرورت پوری ہوسکتی ہے مگر اوچ پاور پلانٹ کی بجلی پہلے نیشنل گرڈ میں جاتی ہے اور وہاں سے پھر ہمیں ملتی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ ہماری ٹرانسمیشن لائنیں مطلوبہ گنجائش کی حامل نہیں کبھی کہا جاتا ہے کہ شہدا د کوٹ یا لورالائی میں فالٹ آگیا ہے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ جان بوجھ کر قصداً کیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے ایم پی اے فنڈز سے کیسکوکھمبے اور ٹرانسفارمرزکی فراہمی کے لئے جو پیسے دیئے وہ بھی جوں کے توں پڑے ہیں میرے پہلے سال2013-14ء کے ساڑھے تین کروڑ روپے اب تک ان کے پاس ہیں انہوں نے تجویز دی کہ صرف قرار داد پاس کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ قرار داد پاس کرنے کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں ایک بااختیار پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وفاق میں جا کر متعلقہ حکام کے ساتھ بات کرے تاکہ یہ اہم مسئلہ حل ہوسکے ۔

انجینئر زمرک خان اچکزئی نے قرار داد پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ اور غلط بلنگ پورے صوبے کا مسئلہ ہے اس مسئلے پر بارہا قرار دادیں منظور کی جاچکی ہیں مگر اس کا واپڈا پر کوئی اثر نہیں ہوتا ہم یہاں تقریریں کرکے چلے جاتے ہیں قراردادیں منظور ہوجاتی ہیں مگر ان کا واپڈا پر کوئی اثر نہیں ہورہا ارکان اسمبلی یہ طے کریں کہ اگر ان کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا تو پھر کیا لائحہ عمل طے کیا جائے انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں پانچ گھنٹے بھی بجلی دستیاب نہیں جس کی وجہ سے باغات تباہ ہوگئے ہیں اب تو لوگوں نے کرائے پر جنریٹر دینا شروع کردیا ہے ہمیں اس مسئلے پر مستقل بنیادوں پر حل کرنا ہوگا ۔

مسلم لیگ(ن)کے غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ بجلی کے مسئلے پر یہاں پر بارہا بحث ہوچکی ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہوتا واپڈا سفید ہاتھی بن چکا ہے جس کو قابو کرنا رو ز بروز مشکل ہوتا جارہا ہے اندرون صوبہ تو دور کی بات کوئٹہ میں طویل لوڈشیڈنگ ہوتی ہے بجلی آنے کا کوئی وقت مقرر نہیں جن دنوں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو اور بجلی کی مانگ بڑھ جائے تو ایسے میں ٹاور گر جاتے ہیں عوام بجلی کو ترس رہے ہیں دوسری طرف واپڈا کی جانب سے گھریلو صارفین کو بھی ہزاروں روپے کے بل بھیجے جارہے ہیں دنیا بھر میں بجلی بنانے کے لئے متبادل ذرائع استعمال کئے جارہے ہیں ہمارے پاس کوئلہ موجود ہے ،اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ایک جانب بمشکل چار سے پانچ گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے مگر اس دوران بھی وولٹیج میں کمی بیشی کے باعث برقی آلات جل رہے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ واپڈا کو بجلی کے منصوبوں کی تکمیل کے لئے تین سال قبل ایڈوانس میں رقم دینے کے باوجود میرے حلقے میں منصوبے مکمل نہیں کئے گئے ہمیں ایک سخت لائحہ عمل طے کرکے اسلام آباد جانا ہوگا۔

مسلم لیگ(ن)کے میر اظہار حسین کھوسہ نے کہا کہ نصیرآباد ڈویژن میں اس وقت درجہ حرارت 50ڈگری سے زیادہ ہے اور ایسے میں پندرہ سے18گھنٹے لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ باقی وقت میں فالٹ اور بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہتی ہے گرڈ سٹیشن ہونے کے باوجود عوام بجلی سے محروم ہیں دوسری جانب کیسکوکے عملے کی جانب سے بھتہ خوری عروج پر ہے انڈسٹریل ایریا میں واقع کارخانوں سے ایک سے ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ لے کر انہیں مسلسل بجلی فراہم کی جاتی ہے زرعی ٹیوب ویلوں کے لئے بجلی نہیں مگر رائس ملوں کو مسلسل بجلی فراہم کی جاتی ہے شدید گرمی میں عوام کا جینا مشکل ہوگیا ہے عوام ہم سے پوچھتے ہیں ہم انہیں کیا جواب دیں اگر ہم اپنے عوام کو بجلی بھی فراہم نہ کرسکیں تو پھر ہمارا اس ایوان میں بیٹھنے کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی ہمیں اس کا کوئی حق حاصل ہے ۔

اس موقع پر پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ واپڈا اور کیسکو دونوں ہماری بات سننے کے لئے تیار نہیں ہم احتجاج کرکرکے تھک چکے ہمارا یہاں بیٹھنے کا جواز نہیں ہم کیسکو اور واپڈا کے رویئے کے خلاف احتجاجاً واک آؤٹ کرتے ہیں جس پر حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ میں ان کا ساتھ دیا سپیکر نے کہا کہ ارکان واک آؤٹ کی بجائے اپنا احتجاج کسی اور طریقے سے ریکارڈ کرائیں تاہم ارکان واک آؤٹ کرکے ایوان سے باہر چلے گئے صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامدخان اچکزئی نے کہا کہ واپڈا اور کیسکو کے حکام ہماری ایک نہیں سنتے بارہا کیسکو حکام کو ایوان میں بلایا گیایقین دہانیوں کے باوجود کوئی کام نہیں ہوا ارکان نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے ہم چونکہ وزیرہیں اور شائستگی اورروایت کی پاسداری کرتے ہوئے یہاں بیٹھے ہیں ورنہ ہمارا موقف بھی وہی ہے جو واک آؤٹ کرنے والے ارکان کا ہے عوام سے پورے بل وصول کرکے بمشکل چند گھنٹے بجلی فراہم کی جاتی ہے ملک کے دوسرے صوبوں کے برابر ہمیں نہیں سمجھاجا تا ٹھیکیدار اور افسران ملے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے منصوبوں پر عمل نہیں ہورہا یہاں تک کہ واپڈا کا ہمارے صوبے میں کوئی سٹور تک نہیں سامان بھی دوسرے صوبے سے لایا جاتا ہے اس موقع پر بعض ارکان واک آؤٹ کرنے والے ارکان کو منا کر واپس لے آئے ۔

جمعیت العلماء اسلام کی شاہدہ رؤف نے کہا کہ میں نے کبھی ایسا انوکھا احتجاج نہیں دیکھا کہ حکومتی ارکان اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کرکے اس کے موقف کو کمزور کررہے ہیں ۔اگر اپوزیشن ارکان واک آؤٹ کریں تو بات سمجھ میں آ تی ہے حکومتی ارکان کا واک آؤٹ سمجھ سے بالا تر ہے صورتحال یہ ہے کہ اگر اپوزیشن یا خواتین ارکان ایوان میں نہ آئیں تو کورم بھی پورا نہیں ہوتا جس سے حکومتی ارکان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ تمام ارکان کو اسمبلی کے ڈیکورم کاخیال رکھنا چاہئے انہوں نے کہا کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ ارکان اسمبلی نے حکومت کے خلاف واک آؤٹ کیا بلکہ حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے واپڈا کے رویئے کے خلاف احتجاج کیا ہے جس کا ارکان کو حق حاصل ہے ہم چونکہ وزیر ہیں اس لئے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے ایوان میں موجود رہے ہیں اس موقع پر بعض ارکان نے بیک وقت کھڑے ہو کر بولنا شروع کردیا جس سے ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا رہا شیخ جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ ایوان میں بولنے کا طریقہ ہوتا ہے ڈیکورم کاخیال رکھاجائے واپڈا کا بلوچستان میں رویہ ناقابل برداشت ہوچکا ہے اگر کسی نے بل ادا نہیں کئے تو اسے ادا کرنے چاہئیں جبکہ زرعی ٹیوب ویلوں کے لئے تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بل ادا کررہی ہیں وہاں لوڈشیڈنگ کا کوئی جواز نہیں پوائنٹ سکورنگ کی بجائے مسائل پر بات کی جائے ۔

مسلم لیگ(ن) کے پرنس احمد علی نے کہا کہ لسبیلہ میں بھی بجلی کی صورتحال تباہ کن ہے وہاں پر کیسکو کی بجائے کے الیکٹرک کی جانب سے بجلی فراہم کی جاتی ہے لہٰذا اس قرار داد میں کے الیکٹرک کو بھی شامل کیا جائے ہم نے بارہا کے الیکٹرک کے حکام سے بات کی وہ اپنے آپ کو نہ صرف بلوچستان اسمبلی بلکہ قومی اسمبلی اور سینٹ سے بھی بالاتر سمجھتی ہے کیسکو اور کے الیکٹرک بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں انہیں لگام دینا ہوگا ۔

مسلم لیگ(ق) کی ڈاکٹر رقیہ ہاشمی نے کہا کہ اتنی اہم قرار داد پر بحث جاری ہے مگر متعلقہ محکموں کے افسران ایوان میں موجود نہیں انہیں یہاں پر آنا اور ارکان کی باتیں سننی چاہئیں صوبائی وزیر ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے کہا کہ ہم صوبائی حکومت کا حصہ ہیں اور ہمیں اس بات پر فخر ہے ہمارے صوبے کی 80فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے مگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے یہ شعبہ تباہی سے دوچار ہے زراعت سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کی نگاہیں ہم پر لگی ہوئی ہیں مگر واپڈا ہم سے امتیازی رویہ برت رہا ہے ہمارے زمینداروں کے اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے ہم کسی پوائنٹ سکورنگ پر یقین نہیں رکھتے جس کا ثبوت یہ ہے کہ بجلی کے عوامی مسئلے پر حکومتی ارکان کے ساتھ اپوزیشن ارکان نے بھی واک آؤٹ کیا ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے زمینداروں کو مسلسل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جمعیت العلمائے اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ یہ پورے صوبے کا ایوان ہے یہاں کوئی پوائنٹ سکورنگ کے لئے نہیں آیا ہم عوامی نمائندے ہیں اور عوامی مسائل پر بات کرتے ہیں پنجاب میں انڈسٹریز کو چوبیس گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے اور جب وہاں پر گرمی کی شدت میں اضافے اور بجلی کی مانگ بڑھ جاتی ہے تو ایسے میں ہمارے صوبے کے ٹاورگرجاتے ہیں اور جب بجلی فراہم کی جاتی ہے تو وولٹیج کا مسئلہ پریشان کن ہوتا ہے انہوں نے کہا کہ میں دعویٰ کرتا ہوں کہ 2017ء کے اختتام تک وفاقی حکومت ملک میں لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردے گی اور اسی نعرے کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی اگر مسلم لیگ(ن)کامیاب ہوگئی تو پھر لوڈشیڈنگ کا سلسلہ دوبارہ شروع کردے گی اور اگر کامیاب نہ ہوسکی تو اس کا تمام ملبہ آنے والی حکومت پر ڈال دے گی انہوں نے کہا کہ ظلم کی انتہا ء دیکھیئے کہ گھریلو صارفین کو ایک ایک لاکھ روپے کے بل بھیجے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ نیب کی جانب سے نوٹس آرہے ہیں ماضی میں واپڈا کو فوج کے حوالے کرکے ہمارے عوام کومشکلات سے دوچار کیا گیا اوریہی کچھ اب دوبارہ ہونے جارہا ہے بیورو کریسی کو ہماری جمہوریت ہضم نہیں ہورہی کیسکو کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز میں سیاسی لوگ بیٹھے ہیں جن کی وجہ سے مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا ہے ۔

جمعیت العلماء اسلام کی حسن بانو نے کہا کہ بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاہم حکومتی ارکان کے واک آؤٹ سے یہ پیغام گیا کہ ارکان بے بس اور مجبور ہیں مسلم لیگ(ن)کی کشور احمد جتک نے کہا کہ بجلی کا مسئلہ وباء کی صورت اختیار کرچکا ہے جس سے پورا صوبہ متاثر ہے یہ مسئلہ حل ہونے کی بجائے روز بروز الجھتا چلا جارہا ہے ٹرانسفارمرز کا جل جانا اور انکی جگہ نئے ٹرانسفارمر تاخیر سے لگانا معمول بن چکا ہے ۔

کھمبے گرنے کے بعد کئی کئی روز تک تاریں لٹکتی رہتی ہیں جن سے انسانی جانوں کے لئے خطرے کے اندیشے بڑھ جاتے ہیں اس صورتحال کا تدارک کیا جائے ۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرئے نے کہا کہ اس قرار داد میں تمام اضلاع کا ذکر کیا جائے انہوں نے ایوان میں آئین پاکستان کی کاپی لہراتے ہوئے کہا کہ اس آئین کے آرٹیکل 157کے تحت آئین صوبوں کو بجلی فراہم کرنے کی ضمانت دیتا ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ضمانت ہوسکتی ہے اس سلسلے میں وفاقی حکومت سے رجوع کیا جائے اور مسئلے کا حل نکالا جائے۔

صوبائی وزیر میر مجیب الرحمان محمد حسنی نے کہا کہ یہ اہم قرار داد ہے جس کی ہم مکمل حمایت کرتے ہیں البتہ تجویز یہ ہے کہ اس میں یہ بات شامل کی جائے کہ پورے بلوچستان میں بجلی کی جعلی بلنگ اور ریڈنگ کا سلسلہ روکا جائے کیسکو کے جو کرپٹ عناصر ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے انہوں نے کہا کہ کسی زمانے میں ہر ضلع میں کیسکو کے ورکشاپ ہوا کرتے تھے انہیں فنکشنل کرنے کی بات اس قرار داد میں شامل کی جائے اور کیسکو کے جو کیسز نیب کے حوالے کئے گئے ہیں انہیں واپس لیا جائے ۔

مسلم لیگ(ن) کی ثمینہ خان نے کہا کہ ارکان نے اس لئے احتجاج نہیں کیا کہ ہم کمزور ہیں بلکہ یہ احتجاج جمہوری تھا ہم کیسکو کی جانب سے مسائل پر توجہ نہ دینے پر ایک شائستہ طریقے سے واک آؤٹ کرکے گئے اس قرار داد میں پورے صوبے کو شامل کیا جائے بجلی کی تقسیم کا عمل بہتر بنایا جائے ہماری ٹرانسمیشن لائنیں موجود ہیں لائن لاسز کو روکا جائے بجلی کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں خود ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے زرعی مقاصد اور گھریلو صارفین کو مسلسل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا نا ہوگا ۔

بعدازں صوبائی وزیر شیخ جعفرخان مندوخیل نے سپیکر کی اجازت سے قرار داد میں اراکین کی جانب سے پیش کردہ تجاویز پر مبنی ترامیم شامل کرتے ہوئے قرار داد دوبارہ ایوان میں پیش کی کہ صوبے کے شہری علاقوں میں6تا8گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں18تا20گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے جبکہ بجلی کا وولٹیج بھی نہ ہونے کے برابر ہے اس لئے صوبائی حکومت وفاقی حکومت سے رجوع کرکے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرائے اور بلوں کی درستگی کو یقینی بنائے ایوان نے قرار داد کو متفقہ طور پر منظور کرلیا سپیکر راحیلہ حمید درانی نے کیسکو چیف کوارکان اسمبلی کی مشاورت سے اسمبلی میں بلانے اورا رکان کو بریفنگ دینے سے متعلق رولنگ دیتے ہوئے عوامی مسائل اور مشکلات کے حل اور بجلی سے متعلق مسئلہ ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے حوالے کرتے ہوئے کمیٹی کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سیشن میں رپورٹ پیش کرے اس موقع پر انہوں نے اسمبلی کی تمام جماعتوں کے پارلیمانی لیڈروں پرمشتمل کمیٹی قائم کرتے ہوئے رولنگ دی کہ مذکورہ کمیٹی صوبے میں بجلی کے مسئلے کو وفاق کے ساتھ اٹھائے ۔

پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کے انجینئر زمرک خان اچکزئی نے کہا کہ تین دنوں سے وزیراعلیٰ پنجاب چین کے دورے پر گئے اور وہاں انہوں نے 50معاہدوں پر دستخط کئے ہمیں یہ خدشہ ہے کہ ہمارے ساتھ سی پیک کے حوالے سے کوئی اور گیم کھیلا جارہا ہے چونکہ چین پاکستان اکنامک کوریڈور کی شروعات گوادر سے ہوتی ہیں اور گوادر بلوچستان کا حصہ ہے اس لئے اس منصوبے پر پہلا حق بلوچستان کا بنتا ہے پھر خیبرپشتونخوا اس کے بعد سندھ کا حق ہے انہوں نے کہا کہ ہم کسی صو بے کی ترقی کے خلاف نہیں مگر کسی کو بلوچستان کے وسائل پر سودے بازی کی اجازت بھی نہیں دے سکتے وزیراعلیٰ پنجاب سے یہ بات پوچھی جانی چاہئیں کہ وہ یہ معاہدے کرکے آئے ہیں یہ معاہدے انہوں نے کس حیثیت سے کیا ۔

اگر وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے اور بلوچستان کے لئے بھی پندرہ بیس معاہدے لے کر آتے تو کتنی اچھی بات ہوتی انہوں نے کہا کہ ہم جب بات کرتے ہیں تو ہم پر ملک توڑنے کا الزام لگایا جاتا ہے پھر کہتے ہیں کہ ہم سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ سب کچھ تو آپ خود کررہے ہو،۔پشتونخوا میپ کے آغا سید لیاقت نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ کسٹم نے شوروم مالکان کو ایک لیٹر جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو بھی گاڑی فروخت ہوگی اس کا ریکارڈ مرتب کیا جائے کسٹم حکام کسی بھی وقت آکر یہ ریکارڈ چیک کرسکتے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ لیٹر آئین کے آرٹیکل8کی سراسر خلاف ورزی ہے اس لئے سپیکر اسمبلی کلکٹر کسٹم کو چیمبر میں بلا کر اس مسئلے پر بات کریں جس پر سپیکر نے کہا کہ وہ کلکٹر کسٹم کو سپیکر میں طلب کرے گی اور آغا لیاقت کو بھی بلائیں گی تاکہ اس حوالے سے بات کی جاسکے ۔

شاہدہ رؤف نے پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کی فیسوں میں جو حالیہ اضافہ ہوا ہے اس سے غریب طلبہ میں بہت زیادہ تشویش پھیل گئی ہے اور وہ اذیت میں مبتلا ہوگئے ہیں داخلہ فیسوں میں اضافہ تعلیم دوستی نہیں بلکہ تعلیم دشمنی ہے۔اجلاس کے دوران جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے صوبائی محکموں کے سیکرٹریز کی عدم موجودگی پر شدیدا حتجاج کرتے ہوئے کہا کہ بار بار نشاندہی کے باوجود سیکرٹریز اجلاسوں میں شریک نہیں ہوتے اور ہمیں کوئی اہمیت نہیں دیتے اس لئے و ہ احتجاجاً فرش پر بیٹھیں گے اس اعلان کے بعد وہ سپیکر کی نشست کے سامنے فرش پر بیٹھ گئے بعدازاں سپیکر نے اس حوالے سے رولنگ دی کہ ایوان میں بار بار یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ صوبائی محکموں کے سیکرٹریز اجلاس میں نہیں آتے بالخصوص جس روز قائد ایوان موجود نہیں ہوتے وہ بھی نہیں آتے انہوں نے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی کہ بلوچستان کے تمام سیکرٹریز کی اجلاسوں میں موجودگی کو یقینی بنائیں ۔

ایوان میں صوبائی وزیر صحت رحمت صالح بلوچ نے بلوچستان شیشہ ممانعت کا مسودہ قانون پیش کیا جسے سپیکر نے ایوان کی متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی رولنگ دی جس کے بعد سپیکر نے اسمبلی کا اجلاس 2اگست سہ پہر چار بجے تک ملتوی کردیا۔

متعلقہ عنوان :