اسٹیٹ بینک کا آیندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 5.75فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان

ہفتہ 30 جولائی 2016 16:26

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔30 جولائی ۔2016ء) اسٹیٹ بینک نے آیندہ 2 ماہ کے لیے شرح سود 5.75فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر اور ٹیکس محصولات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جب کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں انڈیکس میں تیزی کارجحان رہا، کرنٹ اکانٹ خسارے میں کمی ہوئی ہے جب کہ پرائیویٹ سیکٹر کریڈٹ کی رفتاربڑھ رہی ہے۔

ہفتہ کو کراچی میں آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ حکومت کی مثبت پالیسیوں کی وجہ سے ضروری اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے اور افراط زر پر قابو پانے میں مدد ملی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے، صنعتوں کیفروغ اور دہشت گردی میں کمی سے ملک کی معیشت مزید بہتر ہوگی، انہوں نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں اسٹیٹ بینک نے آئندہ دو ماہ کے لیے شرح سود 5.75فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

مالی سال 16 میں پاکستان کی معیشت میں نمایاں بہتری دیکھی گئی اور اوسط سالانہ مہنگائی بلحاظصارف اشاریہ قیمت (CPI) کم ہوکر47 سال کی پست ترین سطح2.9فیصد تک پہنچ گئی اور حقیقی جی ڈی پی کی نمو نے آٹھ برسوں کی بلند ترین سطح 4.7فیصدکو چھو لیا۔ اسٹیٹبینک کے زیر تحویل زر ِ مبادلہ ذخائر میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا، آخر جون 2016 تک یہ ذخائر 18.1ارب ڈالر تھے جو چار ماہ کی درآمدات کے لیے کافی تھے۔

بجٹ خسارہ کم کرنے کی حکومتی کوششیں صحیح راہ پر گامزن رہیں اور محاصل کی وصولی توقعات سے زیادہ ہوئی۔نجی شعبے کے قرضوں میں خاصی تیزی دیکھنے میںآ ئی اور معینہ سرمایہ کاری (fixed nvestment )اور جاری سرمائے (working capital)کے قرضے بڑھ گئے۔ زر ِ وسیع (broad money)کی نمو قابو میں رہی کیونکہ حکومتی قرضپست رہا۔ اس بہتری کے منظرنامے کو محتاط اندا زمیں جانچتے ہوئے اسٹیٹبینک نے مالی سال 16میں اپنا پالیسی ریٹ مجموعی طور پر 75بی پی ایس کم کردیا، جو مالی سال 15میں کی گئی 300بی پی ایس کی کٹوتی کے علاوہ تھا۔

معیشت کی اس بہتری میں بیرونی اور ملکی عوامل دونوں کا کردار ہے۔ بیرونی شعبے میں برآمدی نمو میں کمی کے باوجود تیل کی کم قیمتوں، کارکنوں کی بھرپور ترسیلات ِ زر اور سرکاری رقوم کی وافر آمد کی وجہ سے بازارِمبادلہ مستحکم رہا۔ ملک کے اندر ایف بی آر کے محاصل میں اضافے سے ترقیاتی اخراجات بڑھانے اور ساتھ ہی مالیاتی خسارے کو ہدف کی سطحکے قریب رکھنے میں مدد ملی ہے۔

اگرچہ کرنسی کی اضافی طلب اور بعض مواقع پر کمرشل بینکوں سے حکومتی قرضوں کی بنا پر بازارِ زر (money market)دباو میں رہا تاہم مارکیٹکو کافی سیال رکھنے کے لیے اسٹیٹبینک کی جانب سے سیالیت کے موثر ادخالات (injections )سے زری پالیسی کی بہتر ترسیل میں مدد ملی ہے۔ یہ کیفیت شبینہ(overnight ) ریپو ریٹ میں نمایاں تھی جواوسطا پالیسی ریٹ کے قریب رہا۔ مجموعی لحاظ سے ششماہی کائبور میں مالی سال 16 کے دوران 93بی پی ایس کی بھاری کمی دیکھی گئی ہے جبکہ مئی 2015سے مئی 2016 کے درمیان پالیسی ریٹ میں75بی پی ایس کی کمی ہوئی تھی۔

اس طرحمالی سال 16 میں نجی شعبے کے قرضے میں461ارب روپے کا نمایاں اضافہ لانے میں مدد ملی ہے جبکہ مالی سال 15میں یہ اضافہ 224ارب روپے تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ شرحقرض گاری سیالیت کی فراہمی کے ہمراہ نجی شعبے کے قرضے کی رفتار بڑھا رہی ہے۔مالی سال 17میں آگے چل کر بیرونی شعبے کے منظرنامے پر اثر انداز ہونے والے عوامل مالی سال 16 سے ملتے جلتے ہیں۔

متوقع نان آئل درآمدات کے بڑھنے کی بنا پر جاری کھاتے (current account) کے خسارے میں معمولی اضافے کے باوجودکارکنوں کی ترسیلات ِ زر میں مثبت نمواسے قابل انتظام حدود میں رکھیں گی۔ساتھ ہی ساتھ مالی کھاتے میں دو طرفہ اور کثیر فریقی منصوبہ جاتی قرضوں کی خاصی رقم آنے سے توازن ادائیگی میں مجموعی طور پر فاضل رقم رکھنے میں مدد ملے گی۔ امکان ہے کہ ایم ایس سی آئی کی جانب سے ابھرتی ہوئی منڈیوں کے اشاریے میں پاکستانی اسٹاک مارکیٹکی درجہ بندی کی تبدیلی کی بناپر بیرونی جزدانی سرمایہ کاری (FPI)بڑھنے سے اس فاضل میں مزید اضافہ ہو گا۔

تاہم تیل کی قیمتوں میں غیر متوقع اضافے کا نتیجہ تجارتی خسارہ بڑھنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ چین میں معاشی سست روی کے باعث عالمی تجارت میں مزید بگاڑ سے یہ مسئلہ شدت اختیار کر سکتا ہے۔ خلیج کے علاقے میں سست روی سے کارکنوں کی ترسیلات ِزر کی نمو میں کمی آ سکتی ہے۔ مزید برآں، بریگزٹ کے بعد کی مدت میں یورپی یونین میں معاشی بحالی کے بارے میں غیر یقینی صورت ِحال کے ملک میں مالی رقوم کی آمد (financial inflows) اور تجارت پر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

مالی سال 17 میں پاکستان کی معاشی نمو میں مزید اضافہ ہو گا۔ امکان ہے کہ معاشی تحریک مالی سال 16 جیسے مثبت عوامل کے تسلسل سے ملے گی جو یہ ہیں: (i)پی ایس ڈی پی اور پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری؛ (ii) صنعتوں کو توانائی کی دستیابی میں بہتری؛ (iii) دانشمندانہ زری پالیسی کے تاخیر سے مرتب ہونے والے اثرات؛ (iv) نجی شعبے کی جانب سے قرضوں کے استعمال میں بھرپور اضافہ؛ اور (v) امن و امان کی بہتر ہوتی صورت ِحال۔

منفی سپلائی شاکس ، اجناس کی قیمتوں میں مسلسل کمی کا رجحان اور سلامتی کی صورت ِحال کو کسی بھی دھچکے سے مالی سال 17 میں جی ڈی پی کی نمو کے لیے مقررہ 5.7 فیصد کے ہدف کو حاصل کرنے کا امکان متاثر ہو سکتا ہے۔ ان خطرات کی عدم موجودگی اور موجودہ رفتار برقرار رکھتے ہوئے مالی سال 17 میں جی ڈی پی کی نمو میں بھی تیزی آ سکتی ہے۔ اس ممکنہ منظرنامے کو تشکیل دینے میں آپس میں منسلک دو عوامل کو مرکزی حیثیت حاصل ہو گی۔

پہلا، پی ایس ڈی پی اور پاک چین اقتصادی راہداری سے متعلق سرمایہ کاریوں اور سرگرمیوں میں تیزی آئے گی جو تعمیرات اور منسلک صنعتوں، بڑے پیمانے کی اشیا سازی (LSM)، بجلی کی پیداوار میں اضافے اور خدمات کے شعبے پراس کے اثرات اور ملک میں سرمایہ کاری کے ماحول کو فروغ دینے کے حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہو گا ۔ دوسرا، آئی ایم ایف پروگرام کی کامیاب تکمیل پاکستانی معیشت اور حکومت کے اعتماد میں اضافہ کرے گی جس کی اشد ضرورت ہے جس سے مالی سال 17 میں نمو کے امکانات مزید بڑھ جائیں گے۔

معاشی سرگرمی میں اضافہ مہنگائی کو متاثر کر سکتا ہے۔ چنانچہ اسٹیٹ بینک کی پیش گوئی ہے کہ مالی سال 17 کے دوران صارف اشاریہ قیمت مہنگائی 4.5 تا 5.5 فیصد کی حد میں رہے گی۔ گیس کی قیمتوں میں کسی قسم کے اضافے، مالیاتی انحراف اور رسد میں تعطل سے اس تجزیے کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ تیل کی غیر یقینی عالمی قیمتیں اس پیش گوئی کو لاحق اہم خطرہ ہیں۔ کمزور عالمی طلب کے علاوہ بریگزٹ کی بنا پر اجناس کی عالمی قیمتوں میں ممکنہ کمی اور ملک کے اضافی غذائی اسٹاک کو نکالنے میں حائل مشکلات سے بھی گرانی کی اس پیش گوئی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔