اقوام متحدہ کا روس کی جانب سے حلب میں انسانی گزرگاہیں کھولنے کے اعلان پر شکوک کا اظہار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم ہفتہ 30 جولائی 2016 14:01

اقوام متحدہ کا روس کی جانب سے حلب میں انسانی گزرگاہیں کھولنے کے اعلان ..

جنیوا(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔30جولائی۔2016ء) اقوام متحدہ نے روس کی جانب سے حلب میں انسانی گزرگاہیں کھولنے کے اعلان پر اپنے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے ایک بار پھر کہا ہے کہ مسئلے کا بہترین حل یہ ہے کہ انسانی امدادات کو مکمل آزادی اور حفاظت کے ساتھ شہریوں تک منتقل کرنے کی اجازت دی جائے۔اقوام متحدہ میں انسانی امور کے دفتر کے سربراہ اسٹیفن اوبرائن کے مطابق ہمیں انسانی امور کے شعبے کے کارکنان کے طور پر جس چیز کی ضرورت ہے وہ 48 گھنٹوں کی جنگ بندی ہے تاکہ سرحد اور محاذوں کے راستے کارروائیاں عمل میں لائی جا سکیں اور لوگوں کو ان کی جگہ پر مدد پہنچ سکے۔

ماسکو کی جانب سے اعلان کردہ انسانی گزرگاہوں کے متعلق اوبرائن نے کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ان گزرگاہوں کو تنازع کے تمام فریقوں کی جانب سے ضمانت حاصل ہو اور انہیں رضاکارانہ طور پر استعمال کیا جا سکے۔

(جاری ہے)

انہوں نے واضح کیا کہ کسی شخص کو بھی کسی مخصوص راستے سے فرار پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ادھر برطانوی سفیر میتھیو رائک روفٹ نے بھی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان گزرگاہوں کے ذریعے امدادی سامان حلب منتقل کرنے کی اجازت دی گئی تو اس کا خیرمقدم کیا جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حلب کی صورت حال بہتر بنانے کے لیے بہترین کام یہ ہے کہ شامی حکومت اور اس کے حلیفوں کی جانب سے بمباری کی مہم کو روک دیا جائے۔ماسکو نے گزشتہ روز اعلان کیا تھا کہ شام کے شہر حلب میں شہریوں اور ہتھیار ڈالنے والے جنگجوو¿ں کے نکلنے کے لیے انسانی گزرگاہیں قائم کی جائیں گی۔ اپوزیشن گروپوں کے زیرکنٹرول شہر کے مشرقی حصے اس وقت مکمل طور پر شامی حکومت کی فوج کے محاصرے میں ہیں۔

روس کے اعلان کے ساتھ ہی شامی صدر بشار الاسد کی جانب سے ایک صدارتی فرمان جاری کیا گیا جس میں آیندہ تین ماہ کے دوران ہتھیار ڈالنے اور خود کو حکام کے حوالے کرنے والے انقلابیوں کو عام معافی کی پیش کش کی گئی ہے۔اگر روس کے اعلان پر عمل درامد یقینی ہو جاتا ہے تو شامی حکومت کے لیے ممکنہ طور پر ملک کے کسی دوسرے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار ہو جائے گی۔ یہ امر اپوزیشن پر کاری وار ثابت ہوگا جو پانچ برسوں سے شامی صدر بشار الاسد کی حکومت گرانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔

متعلقہ عنوان :