نئے گھروں کی تعمیر پر 1995سے پابندی ہے، اس کے بعد کوئی سرکاری گھر اسلام آباد میں نہیں بن سکا ،پچھلے دنوں ایف سکس میں 192گھروں کو گرا کر نو منزلہ 2500اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کی سمری وزیر اعظم نے مسترد کردی ،پرانے گھروں کی مرمت کیلئے دو کروڑ مختص کئے جاتے ہیں،یہ بڑے بنگلوں کی ضروریات پر پورے ہو جاتے ہیں چھوٹے ملازمین کیلئے ایک روپیہ نہیں بچتا ،پلاننگ ڈویژن کے ایک افسر نے سرکاری گھر نہ ملنے پر ایک کروڑ کے فنڈز جاری نہیں ہونے دیئے

سینیٹ کمیٹی برائے تفویض کردہ قانون سازی کے اجلاس میں سیکرٹری برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی بریفنگ

جمعرات 28 جولائی 2016 22:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 جولائی ۔2016ء) سینیٹ کمیٹی برائے ڈیلیگیٹیڈ لیجیسلیشن (تفویض کردہ قانون سازی) کے اجلاس میں سیکرٹری برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے انکشاف کیا کہ نئے گھروں کی تعمیر پر 1995سے پابندی ہے، اس کے بعد کوئی سرکاری گھر اسلام آباد میں نہیں بن سکا ،پچھلے دنوں ایف سکس میں 192گھروں کو گرا کر نو منزلہ 2500اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کی سمری وزیر اعظم کو بھیجی مگر منظور نہیں ہوئی،پرانے گھروں کی مرمت کیلئے دو کروڑ مختص کئے جاتے ہیں جو بڑے بنگلوں کی ضروریات پر پورے ہو جاتے ہیں چھوٹے ملازمین کیلئے ایک روپیہ نہیں بچتا اور پلاننگ ڈویژن کے ایک افسر نے سرکاری گھر نہ ملنے پر ایک کروڑ کے فنڈز جاری نہیں ہونے دیئے،اسٹیٹ آفس حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری گھروں پر غیر قانونی قبضہ چھڑانے کیلئے مجسٹریٹ کی موجودگی کو اسسٹنٹ کمشنر کے ذریعے لازمی قرار دیا ہے،اس سے دشواری پیدا ہوتی ہے، آئی جی جنگلات نے کمیٹی کو بتایا کہ 16بین الا قوامی معاہدات کے تحت وزارت موسمی تغیرات کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے پانچ معاہدات جنگلات سے وابستہ ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بارڈر پر درختوں کی کٹائی کے متعلق قوانین مرتب ہیں ان میں ترمیم کی ضرورت ہوئی تو وزارت دفاع نے وہ قوانین ہمیں بھیجے ہیں ،سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ میرے پاس ایسے لوگوں کے ریکارڈ موجود ہیں جن کے اثاثے2002 میں بہت کم تھاایک گھر اور ٹویوٹاکے مالک تھے آج وہ مرسیڈیز میں گھومتے ہیں اور اربوں کی پراپرٹی کے مالکان بن چکے ہیں ۔

سینیٹ سوسائٹیاں بنا کراربوں کی خرد برد کی گئی ہے۔سینیٹ کمیٹی برائے ڈیلیگیٹیڈ لیجیسلیشن (تفویض کردہ قانون سازی)کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔کمیٹی کے اجلاس میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور اس کے ماتحت ا داروں اور موسمی تغیرات اور اس کے ماتحت اداروں کے متعلق قوانین،ایکٹ ،قواعد و ضوابط اور ایس آر اوز کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹرز محمد اعظم خان سواتی،محمد داؤد خان اچکزئی اور محمد جاوید عباسی کے علاوہ سیکرٹری برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس ، سیکرٹری موسمی تغیرات کے علاوہ دیگر اعلی حکام نے شرکت کی۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ چیئرمین سینیٹ اور سینیٹرز نے یہ محسوس کیا ہے کہ اداروں کے جو رولز اور قوانین مرتب کئے گئے ہیں وقت گزرنے کے ساتھ ان میں ترمیم کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔

رولز ریگولیشن ایکٹ کے مطابق نہیں ہیں۔بعض محکموں کو ضرورت سے ذیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں یہ انتہائی نوعیت کا کام ہے ۔چیئرمین سینیٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ اداروں کے رولز قوانین پر نظر ثانی کی جائے تاکہ اداروں کی کارکردگی میں بہتری آئے اور عوامی مسائل ختم ہوں ۔ اس حوالے سے یہ کمیٹی قائم کی گئی ہے ا ور اداروں کو بلا کر ان کے ایکٹ، رولز، قوانین ،ایس آر اوز اور اداروں کے متعلق آرڈینینس کا جائزہ لیا جائے۔

ایکٹ اور رولز منگوائے جا رہے ہیں اور اس حوالے سے ذیلی کمیٹیاں بھی تشکیل دی جا رہی ہیں ۔آج موسمی تغٖیرات اور وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور ان کے ماتحت اداروں کے رولز ایکٹ ، قوانین کا تفصیل سے جائز ہ لیا جائیگا اور وزارت قانون کو بھی کہا گیا ہے کہ وہ کمیٹی کے اجلاس میں اپنی شرکت یقینی بنائیں اور رولز ایکٹ وقوانین میں ترمیم کے حوالے سے اداروں اور سینیٹ کمیٹی کی مدد کریں۔

سیکرٹری برائے ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے کمیٹی کو وزارت اور اس کے ماتحت اداروں کے حوالے سے کی گئی قانون سازی ایکٹ اور قوانین بارے تفصیل سے آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ وزارت کے ماتحت تین ادارے کام کر رہے ہیں ان میں سے پاک پی ڈبلیو ڈی،سٹیٹ آفس،نیشنل ہاؤسنگ اتھارٹی او رمزید تین تنظیمیں بھی ان کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی و اراکین کمیٹی نے کہا کہ وزارت او را ن کے ماتحت اداروں کے متعلق مسائل ہیں لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے ۔

وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور اس کے ماتحت ادارے اپنے رولز اور قوانین کا تفصیل سے جائزہ لیں ا ور عوام کے مسائل کے حل کیلئے بہتر تجاویز مرتب کریں۔کمیٹی وزارت قانون کے ساتھ ان تجاویز کا تفصیل سے جائزہ لے کر ایکٹ و قوانین میں ترمیم کی سفارش کرینگے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ این ایچ اے کی اتھارٹی کو بحال کیا جائے اور فیڈرل ملازمین کی رہائش کے مسائل کو حل کیا جائے۔

سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ میرے پاس ایسے لوگوں کے ریکارڈ موجود ہیں جن کے اثاثے2002 میں بہت کم تھاایک گھر اور ٹویوٹاکے مالک تھے آج وہ مرسیڈیز میں گھومتے ہیں اور اربوں کی پراپرٹی کے مالکان بن چکے ہیں ۔سینیٹ سوسائٹیاں بنا کراربوں کی خرد برد کی گئی ہے۔ایک مافیا ٹیکنیکل طریقے سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ نئے گھروں کی تعمیر پر 1995سے پابندی ہے اس کے بعد کوئی سرکاری گھر اسلام آباد میں نہیں بن سکا۔

پچھلے دنوں ایف سکس میں 192گھروں کو گرا کر نو منزلہ 2500اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کی سمری وزیر اعظم کو بھیجی مگر منظور نہیں ہوئی۔سٹیٹ آفس کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ سرکاری گھروں پر غیر قانونی قبضہ چھڑانے کیلئے مجسٹریٹ کی موجودگی کو اسسٹنٹ کمشنر کے ذریعے لازمی قرار دیا ہے۔اس سے دشواری پیدا ہوتی ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پرانے گھروں کی مرمت کیلئے دو کروڑ مختص کئے جاتے ہیں جو بڑے بنگلوں کی ضروریات پر پورے ہو جاتے ہیں چھوٹے ملازمین کیلئے ایک روپیہ نہیں بچتا اور پلاننگ ڈویژن کے ایک افسر نے سرکاری گھر نہ ملنے پر ایک کروڑ کے فنڈز جاری نہیں ہونے دیئے۔

آئی جی جنگلات نے کمیٹی کو بتایا کہ 16بین الا قوامی معاہدات کے تحت وزارت موسمی تغیرات کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے پانچ معاہدات جنگلات سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بارڈر پر درختوں کی کٹائی کے متعلق قوانین مرتب ہیں ان میں ترمیم کی ضرورت ہوئی تو وزارت دفاع نے وہ قوانین ہمیں بھیجے ہیں ۔ہمیں انکاعلم نہیں تھا ۔جنگلات کے متعلق قوانین آذادی پاکستان سے پہلے کے بھی ہیں ان میں کچھ ترمیم کی گئی ہے کمیٹی نے وزارت دفاع اور وزارت قانون سے رائے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ا ور جنگلات کے قانون کی بہتری کیلئے محکمہ کو سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت دی۔

آئی جی جنگلات نے کہا کہ ملک میں جانوروں کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کیا جاتا ہے ریچھ کتوں کی لڑائی عام ہوتی ہے۔یہ فیڈریل ایکٹ ہے۔وزارت قانون کو جائزہ لینے کیلئے بھیجا ہے مگر ابھی کوئی جواب نہیں آیا ۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارہ بین الا قوامی قانون کے مطابق اپنے رولز کو دیکھے اور صوبے جانوروں کے ساتھ بے رحمی کے سلوک کو دیکھیں اور جو چیزیں صوبوں کی ہیں اور جو فیڈرل کی ہیں انکاجائزہ لے کر تجاویز مرتب کریں اور تجاویز میں اٹھارویں ترمیم اور بین الا قوامی معاہدے کو مدنظر رکھا جائے۔

کمیٹی نے وزارت موسمی تغیرات اور اسکے ماتحت اداروں کو بھی ان کی قوانین و ایکٹ کا تفصیلی جائزہ لے کر سفارشات مرتب کرنے کی ہدایت کر دی تاکہ ماحول اور موسم کے متعلق عوام کو بہتر سہولیات پہنچائی جائیں اور قدرتی آفات سے جتنا زیادہ ممکن ہو عوام کو بچایا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :