قائمہ کمیٹی تجارت کا اپنے منظور کردہ بلوں پر عمل درآمد میں تاخیر پر برہمی کا اظہار ،30اکتوبر تک عمل درآمد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

ملک کی بر آمدات گر رہی ہیں،اس کی بنیادی وجہ ادارے اور فریقین ہیں ایکسپورٹ بڑھانے میں مدد کیلئے ایگزم بنک کی تشکیل مکمل نہیں ہو سکی ،ایگزم بنک کے رولز ،ریگولیشن اور مکمل ڈھانچہ 30نومبر تک بنا دیا جائے ، اہم اور ذمہ دار افراد کا قحط الرجال ہے ،قوانین میں ابہام اور شقم ہونے کی وجہ سے معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں ، کمیٹی چیئرمین کا اظہار خیال

جمعرات 28 جولائی 2016 22:03

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 جولائی ۔2016ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی تجارت کے چیئرمین سینیٹر سید شبلی فراز نے قائمہ کمیٹی کی طرف سے چار منظور کردہ قانون سازی کے بلوں پر عمل درآمد میں تاخیر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے30اکتوبر تک عمل درآمد رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی بر آمدات گر رہی ہیں،اس کی بنیادی وجہ ادارے اور فریقین ہیں ،ایکسپورٹ بڑھانے میں مدد کیلئے ایگزم بنک کی تشکیل مکمل نہیں ہو سکی، ایگزم بنک کے رولز ،ریگولیشن اور مکمل ڈھانچہ 30نومبر تک بنا دیا جائے اور کہا کہ افسوسناک امر ہے کہ اہم اور ذمہ دار افراد کا قحط الرجال ہے۔

تربیت یافتہ لوگ نہیں ملتے ۔بے روزگاری بڑھ رہی ہے ۔وزارت قانون میں بھی اصلاحات کی اشدضرورت ہے۔

(جاری ہے)

ہفتوں کا کام مہینوں اور مہینوں کا سالوں میں کیا جاتا ہے۔قوانین میں ابہام اور شکم ہونے کی وجہ سے معاملات عدالتوں میں جاتے ہیں۔ ایک سال گزرنے کے باوجود عمل درآمد نہیں ہوا۔لیکن الزامات قانون ساز اداروں اور سیاست دانوں پر لگائے جاتے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے اینٹی ڈمپنگ ٹریبونل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ متعین مدت گزرنے کے باوجود تشکیل نو کیوں نہیں ہوئی۔ وفاقی وزیرتجارت خرم دستگیر نے کہا کہ فارما انڈسٹری کیلئے بہت ذیادہ سہولیات دی جا رہی ہیں۔وفاقی وزیرصحت تمام فریقوں کی موجودگی میں ایک کمرے میں بیٹھ کر فارما انڈسٹری کے مسائل حل کرائینگے۔حکومت کی اعلان کردہ ٹریڈ پالیسی میں بھی فارما انڈسٹری کیلئے سہولیات کا اعلان کیا گیا ہے۔

پاکستان میں کوئی ایف ڈی اے سے منظور شدہ فرم نہیں ، اگر کوئی فرم رجسٹریشن میں جائے تو حکومت 50 فیصدمدد کریگی۔سرٹیفیکیشن میں بھی یہی سہولت دی جائیگی۔جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کیلئے حکومت 20 فیصد واپس کریگی۔اسی طرح قرضوں پر بھیشرح سود 100 فیصد حکومت دیگی اور کہا کہ ہمسایہ مملک میں ڈبلیو ایچ او کے ساتھ درجنوں کمپنیاں رجسٹر ہیں پاکستان میں ایک بھی نہیں۔

کمپنیاں معیار بہتر کریں۔سرٹیفیکیشن کے علاوہ کسی بھی قسم کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ٹریڈ پالیسی میں بھی فارما کیلئے بلا واسطہ سہولیات موجود ہیں اور برانڈ رجسٹریشن کیلئے سہولت ہے ۔ سینیٹر سعود مجید نے سوال اٹھایاکہ وزارت قانون نے کیسے لکھ دیا کہ ٹریبونل 90 دن کے بعد بھی کام جاری رکھ سکتا ہے۔ جس پر آگاہ کیا گیا کہ رولز بن گئے ہیں ۔جلد عمل ہو جائیگا ۔

چیئرمین کمیٹی نے وزارت قانون سے کل تحریری جواب طلب کر لیا۔سیکرٹری وزارت نے آگاہ کیا کہ وزارت قانون میں اصلاحاتی ایجنڈے پر کام جاری ہے۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ اینٹی ڈمپنگ بل کو منظور ہوئے آٹھ ماہ گزر چکے ہیں اینٹی ڈمبپنگ کورٹ آپریشنل بنائی جائے جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت دی کہ 30اکتوبر تک چاروں قوانین پر عمل کرائیں۔ایگزم بنک کے حوالے سے آگاہ کیا گیا کہ پہلے کمپنی بنائی گئی جو ایس ای سی پی میں رجسٹر ہے۔

ڈی ایف آئی کے تحت بنک کی منظوری دی گئی ہے ۔100 ارب روپے کا کیپیٹل ہے جس میں10 بلین پیڈ کیپیٹل شامل ہے۔7 بلین جاری کر دیا گیا ہے. بنیادی طور پر ایکسپورٹرز کیلئے بنک بنایا گیا ہے۔بورڈ آف گورنر کیلئے آج کی اخبارات میں اشتہارات دے دیئے ہیں۔ سی ای او کی نامزدگی کیلئے سٹیٹ بنک کو کہا گیا ہے۔21اگست کو جنرل اجلاس بلایا جا رہا ہے ۔ایکسپورٹرز کو طویل المدت اور قلیل المدت فنانسنگ سکیموں کے ذریعے سہولیات دی جائینگی۔

نیشنل ٹیرف کمیشن کے حوالے سے کہا گیا کہ ایک چیئرمین کے ساتھ چار ممبر ز کی مدت تین سے پانچ سال کر دی گئی ہے۔ٹیرف پروٹیکشن کی مدت 120 دن سے کم کر کے 60دن کر دی گئی ہے۔سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ دو نمبر گھی بنانے میں استعمال ہونے والے تیل کی ایکسپورٹ کو روکا جائے ۔ استعمال شدہ تیل دبئی سے ڈرموں میں ایکسپورٹ ہو رہا ہے اور کہا کہ دبئی میں کون سا کوکنگ آئل بنتا ہے۔

کسٹم حکام کی ملی بھگت سے سارا کام ہو رہا ہے شکایت کرنے پر رشوت لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔عوام اور ملک کی خاطر جہاں اطلاع ملے کاروائی ہونی چاہئے۔ کمیٹی اجلاس میں فارما سوٹیکل کے عہدیداران نے انڈسٹری کو درپیش مسائل کے بارے میں آگاہ کیا کہ فارما سوٹیکل کونسل کا قیام زیر التوء ہے۔فارما انڈسٹری پاکستان کی تجارت کا مستقبل ہے۔ملک میں کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور میں 700یونٹس ہیں۔

40سے ز ائد ممالک میں ایکسپورٹ کر رہے ہیں ۔ دنیا کی فارما ٹریڈ1.3یو ایس ٹریلین ڈالر ہے۔ لائسنس رکھنے والی ایک بھی فرم یا کمپنی پر جعلی دوائیاں بنانے کاا لزام نہیں ۔ہیپاٹائٹس سی کے ٹیکوں کی امریکہ میں قیمت1 ہزار ڈالر ،بھارت میں 17 ہزار روپے اور پاکستان میں مقامی تیار کردہ ٹیکوں کی قیمت 5800 روپے سے اب 4000 روپیہے۔ نئے مالیکیول کی منظوری میں تاخیر سے مسائل ہیں۔

PICSکے ساتھ الحاق سے 27ممالک تک پہنچ ممکن ہو سکتی ہے۔رجسٹریشن جی این پی تبدیلی نام کیلئے بہت ذیادہ وقت ضائع ہو جاتا ہے فارما انڈسٹری درحقیقت ڈریپ کے ٹریپ میں ہے۔ڈریپ میں دو سال سے سی ای او نہیں لگایا گیا ۔ایکریڈیشن کیلئے بھی دو سال درکار ہیں۔جس پر چیئرمین کمیٹی نے شدید برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری ریگولیٹری اتھارٹی کی کیا حیثیت اور جرات ہے کہ ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہے ہیں۔

بلیک میلنگ اور تاخیری حربوں کی وجہ سے بین الا قوامی مارکیٹ انتظار نہیں کر سکتی اور کہا کہ حکومتی اداروں کیلئے بہترین میکنزم بنایا جائے اور فارما انڈسٹری پر نظر رکھنے اور چیک اینڈ بیلنس کا سخت نظام وضع کر کے دو نمبر دوائیوں کی پیداوار استعمال اور فروخت کو بھی روکا جائے۔سینیٹر راحیلہ مگسی نے کہا کہ تھائی رائیکسن دوائیاں بہت ذیادہ سمگل ہو رہی ہے ۔

سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ 20کروڑ شہریوں کی صحت کا مسئلہ اہم ہے۔ تاخیری حربوں پر اور جعلی دوائیاں بنانے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے اچھے کاروباریوں کو تنگ کرنا بند کیا جائے۔ فارماعہدیداران نے کہا کہ ملکی صنعت کوہیپا ٹائٹس سی کی دوائیوں کیلئے تین سال انتظار کرنا پڑا۔صرف ایک کمپنی کی رجسٹریشن کی گئی جس نے چھ ارب روپے کا کاروبار کیا۔

فروخت دوائی ابتدائی طور پر75ہزار سے پھر56ہزار اور اب 36ہزار روپے میں فروخت کی جارہی ہے اور تجویز کیا کہ ڈریپ کو وزارت کامرس میں ضم کر دیا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے پشاور کے جم ایکسپورٹرز کے نو لاکھ کے واجبات ادا کرنے کی ہدایت کی جس پر وزارت نے جلد عمل درآمد کا یقین دلایا۔کمیٹی اجلاس میں سینیٹرز الیاس احمد بلور،کریم احمد خواجہ،سعود مجید،محمد عثمان خان کاکڑ،راحیلہ مگسی، کے علاوہ وفاقی وزیر خرم دستگیر،سیکرٹری وزارت اور اعلی حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :