کراچی پولیس کے 820سی سی ٹی وی کیمروں میں سے صرف 17فعال

کراچی میں 2ہزار 321سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس، کے ایم سی اور حکومت سندھ کے پاس امجد صابری کیس میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، قتل کرنے والے گروہ کا تعین ہوچکا ہے،آئی جی سندھ کا عدالت عظمیٰ میں بیان

جمعرات 28 جولائی 2016 18:26

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔28 جولائی ۔2016ء) آئی جی سندھ نے عدالت عظمی کو بتایا کہ پولیس کو امجد صابری کیس میں اہم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں، انہیں قتل کرنے والے گروہ کا تعین ہوچکا ہے، پولیس ملزمان کے بہت قریب پہنچ چکی ہے، آئندہ چند روزمیں امجد صابری کے قاتل قانون کی گرفت میں ہوں گے۔عدالت نے آئی جی سندھ سے سوال کیا کہ فوجی جوانوں کی شہادت کے موقع پرسی سی ٹی وی کیمرے کام کیوں نہیں کررہے تھے۔

آپ کے کیمروں پر شہد کی مکھیاں بیٹھی ہیں، کیمرے واضح تصاویر نہیں لے سکتے تو کیوں لگائے گئے، جس پر اﷲ ڈنوخواجہ نے جواب دیا کہ پولیس تفتیش کا بنیادی محکمہ ہے لیکن سہولیات کی عدم فراہمی سے تفتیش متاثرہوتی ہے،اسلام آباد میں 10 ارب روپے کی لاگت سے 15 ہزارکیمرے لگائے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

آئی جی سندھ کی بات پرجسٹس خلجی عارف حسین نے استفسارکیا کہ اسلام آباد میں اتنی بڑی رقم اورکراچی کے لیے حکومت کے پاس پیسا نہیں، کیا اسلام آباد کے لوگوں کا بلڈ گروپ زیادہ اچھا ہے۔

اسلام آباد کے لوگوں کی طرح کراچی کے لوگ بھی اہم ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ نے کہا کہ صوبائی حکومت کیمرے لگانے پرغورکرے گی ، جس پر جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ لوگ 5 سال سے مررہے ہیں اور آپ ابھی سوچیں گے۔ سی سی ٹی وی کیمرے وقت کی اہم ضرورت ہے ، اگر انفراسٹرکچر ہی خراب ہوگا تو پولیس کیا کرے گی ، وزارت آئی ٹی سندھ حکومت کا نااہل ترین محکمہ ہے، اگر ادارہ اسے نہیں چلا سکتا تو اس معاملے کو ٹھیکے پر دے دیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ تو شفاف ہونا چاہیے، ابھی اچانک ایک کمپنی بن جائے گی اور اسے ٹھیکہ بھی دے دیا جائے گا۔جیو فینسنگ سے متعلق سپریم کورٹ کے استفسار پر آئی جی سندھ نے بتایا کہ سیلولر کمپنیاں اپنے ڈیٹا تک رسائی نہیں دیتیں، ہمیں ایک کیس میں 14 دن بعد ڈیٹا تک رسائی دی گئی۔ آئی جی کے بیان پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیوفینسنگ کی سہولت بھی ضرورت پڑنے پر دو گھنٹے میں دی جاتی ہے جب کہ چیئرمین پی ٹی اے نے کہا کہ سیلولرکمپنیوں کے ڈیٹا تک رسائی صرف متعلقہ اداروں کو حاصل ہے۔

جس پرجسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس دیئے کہ سرکاری ادارے ایک دوسرے کی طرف انگلی اٹھائیں یہ مناسب نہیں، آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔عدالت نے ناقص کیمروں کی تنصیب پراظہاربرہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگرانفراسٹرکچر ہی خراب ہوگا تو پولیس کیا کرے گی، ناکارہ کیمروں کی منظوری دینے والے افسران کے خلاف کارروائی ہوگی، دو ہفتوں میں بتایا جائے نئے کیمروں کی تنصیب کا عمل کب تک شروع کردیا جائے گا اوریہ بھی بتایا جائے کہ پولیس کو غیرسیاسی کرنے کیلیے کیا اقدامات کیے گئے۔

اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے آئی جی جیل خانہ جات سے بھاگے ہوئے ملزمان سے متعلق تفصیلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ہمیں معلوم ہے کہ سزایافتہ لوگ بھی جیلوں سے بھاگے ہوئے ہیں اور یہ معاملہ پیرول پر رہا کئے گئے ملزمان سے زیادہ سنگین ہے۔ کیس کی مزید سماعت 11 اگست کو ہوگی۔

متعلقہ عنوان :