انڈونیشیا نے پاکستانی سمیت14 غیر ملکیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیل مسترد کردی،سزاؤں پر عملدرآمد کی تیاریاں

یہ اموات ہمارے مثبت قوانین پر عمل درآمد ہیں ان میں تاخیر یا تعطل نہیں کیا جائے گا، ترجمان اٹارنی جنرل آفس

جمعرات 28 جولائی 2016 16:35

جکارتہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 جولائی ۔2016ء) انڈونیشیا کے حکام نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے ایک پاکستانی سمیت 14 غیر ملکیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیل مسترد کرتے ہوئے ان سزاؤں پر عملدرآمد کی تیاریاں بھی شروع کر دیں،سزائے موت پانے والوں میں 52 سالہ پاکستانی شہری ذوالفقار علی کے علاوہ نائجیریا، زمبابوے اور انڈیا کے شہری بھی شامل ہیں،ان تمام افراد پر منشیات کی سمگلنگ کا الزام ہے ۔

غیر ملکی میڈیارپورٹس کے مطابق انڈونیشیا کے حکام نے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی جانب سے ایک پاکستانی سمیت 14 غیر ملکیوں کی سزائے موت روکنے کی اپیل مسترد کردی ہیں۔ انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل ایچ محمد پراسیتیو کا کہنا ہے کہ انھیں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب فائرنگ سکواڈ کے ذریعے سزائے موت دی جائے گی۔

(جاری ہے)

برطانوی میڈیا کے مطابق ذوالفقار علی سمیت تمام مجرمان کی سزا پر عمل درآمد جاوا کے جزیرے نسکام بنگن کی جیل میں ہوگا جہاں انھیں پیر کو منتقل کیا گیا ہے۔

جس جیل میں انھیں سزائے موت دی جائے گی وہاں ایمبولینسیں اور تابوت بھی پہنچا دیے گئے ہیں۔جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانے نے سزائے موت پانے والے پاکستانی شہری ذوالفقار علی کی سزا پر عمل درآمد روکنے کے لیے انڈونیشیا کے اعلی حکام سے رابطہ کیا تھا اور اس مقدمے کا دوبارہ جائزہ لینے کی درخواست کی تھی۔تاہم اب پاکستانی سفارتخانے کے ناظم الامور سید زاہد رضا کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکام کو ان کی سزا پر فوری عمل درآمد کے بارے میں مطلع کر دیا گیا ہے۔

انڈونیشیا کے اٹارنی جنرل آفس کے ترجمان محمد روم کا بھی کہنا ہے کہ یہ اموات ہمارے مثبت قوانین پر عمل درآمد ہیں اور ان میں تاخیر یا تعطل نہیں کیا جائے گا۔ان کا کہنا تھا کہ تمام مقدمات میں بشمول اپیلوں کے طویل قانونی کارروائی کی گئی۔ ان تمام افراد کو تمام مرحلوں پر مواقع فراہم کیے گئے۔ذوالفقار علی کے بیٹے فضل عباس کا کہنا ہے کہ میری یہی درخواست ہے کہ میرے والد کو وہاں سے جلد از جلد چھڑوایا جائے۔

والد کو رات تک کا وقت دے دیا گیا ہے اور میری صدرِ پاکستان اور وزیراعلی سے درخواست ہے کہ انھیں جلد از جلد چھڑوایا جائے۔ 2004 میں مغربی جاوا میں اپنی رہائش گاہ سے حراست میں لیے جانے والے ذوالفقار علی کو 300 گرام ہیروئن رکھنے پر 2005 میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔انھیں انڈونیشیا کے شہری گردیپ سنگھ کے بیان کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا جو 2004 میں جکارتہ کے ہوائی اڈے پر ہیروئن سمگل کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔

تاہم بعدازاں گردیپ اپنے اس بیان سے منحرف ہوگئے تھے اور کہا تھا کہ یہ بیان پولیس نے ان سے زبردستی لیا تھا اور ذوالفقار علی بیگناہ ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت حقوقِ انسانی کے گروپوں نے ذوالفقار علی کی سزا پر شدید تحفظات ظاہر کیے ہیں اور الزام لگایا ہے کہ نہ صرف ان پر تشدد کیا گیا بلکہ ان پر چلایا گیا مقدمہ بھی منصفانہ نہیں تھا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید رعد الحسین نے بھی کہا تھا کہ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے ان افراد پر چلائے گئے مقدمات منصفانہ نہیں تھے۔

متعلقہ عنوان :