کراچی بدامنی کیس،چیف سیکریٹری سندھ نے شہرمیں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرادی

جمعرات 28 جولائی 2016 15:46

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔28 جولائی ۔2016ء) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جمعرات کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لارجر بنچ نے کراچی ا من و امان کیس کی سماعت کی ۔لارجر بنچ جسٹس امیر ہانی مسلم ،جسٹس مشیر عالم ،جسٹس فیصل عرب اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل ہے۔چیف سیکریٹری سندھ نے شہرمیں لگے سی سی ٹی وی کیمروں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

رپورٹ کے مطابق شہر میں 2321 سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جن کا کنٹرول پولیس کے ایم سی اور حکومت سندھ کے پاس ہے ۔ یکم اکتوبر 2016 سے سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول پولیس کو دے دیا جائے گا ۔ شہر میں 2 اور 5 میگا پکسل کے کیمرے کام کر رہے ہیں ۔ پولیس کے مطابق 2012میں 820 لگائے گئے کیمروں میں سے صرف 17 کیمرے کام کر رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

عدالت میں چیئرمین پی ٹی اے اسماعیل شاہ، چیئر مین پیمراابصارعالم ، چیف سیکرٹری سندھ محمدصدیق میمن، آئی جی سندھ اللہ ڈنوخواجہ اور ایڈیشنل آئی جی کراچی مشتاق مہرپیش ہوئے ۔

دوسری طرف چیف جسٹس نے خود کو کراچی بدامنی کیس سے الگ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سو شل میڈیا پر ان کے اور اہل خانہ کے بارے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے لہذا مناسب نہیں کہ اس صورتحال میں بینچ کا حصہ رہوں ۔ چیف سیکرٹری سندھ نے شہر میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کے معیار اور کارکردگی کے حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرادی ہے ۔رپورٹ کے مطابق کراچی میں نصب 2321 کیمروں کا کنٹرول کے ایم سی ، پولیس اور حکومت سندھ کے پاس ہے ۔

کے ایم سی نے 2008 میں دو میگا پکسل کے 168 کیمرے ،، 2014 میں 910 کیمرے اور 2015 میں پانچ میگا پکسل کے 225 کیمرے نصب کئے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2011 میں حکومت سندھ کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ نے 46 مقامات پر 198 کیمرے نصب کرائے جو پانچ میگا پکسل کے تھے جبکہ سندھ پولیس نے 2012 میں دو میگا پکسل والے 820 کیمرے لگوائے ، جن میں سے صرف 17 کام کر رہے ہیں ۔2008میں کے ایم سی کی سمری اور محکمہ خزانہ کی تجویز پر وزیر اعلی نے تمام کیمروں کا کنٹرول سندھ پولیس کو منتقل کرنے کی منظوری دی ہے ۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ پولیس کے کیمروں کے لئے دو میگا پکسل مقرر کرنے کی ذمہ دار ٹیکنیکل کمیٹی تھی۔نصب شدہ کیمروں کا سروے اور نہ ہی کوئی کنسلٹیشن رپورٹ رکارڈ پر موجود ہے۔حکومت سندھ نے 2010 اور 2011 کے بجٹ میں ایئر پورٹ سے نکلنے والے مختلف روٹس پر 164 مقامات پر کیمرے لگانے کے لئے 500 ملین مختص کئے ۔منصوبے کی تکمیل کے لئے آئی جی نے تین کمیٹیاں بنائی ہیں ۔

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ یکم اکتوبر 2016 سے مختلف اداروں کی طرف نصب کئے گئے کیمروں کا کنٹرول سندھ پولیس کو دے دیا جائے گا ۔اس فیصلے کا مقصد ٹریفک نگرانی ، اسٹریٹ کرائیم کی پکڑ ، وی آئی سیکیورٹی اور عوام کے تحفظ کو بہتر بنانا ہے ۔حکومت نے حالیہ مالی سال کے بجٹ مین اس مقصد کے لئے 270 ملین کی رقم مختص کی ہے ۔جیف جسٹس نے سندھ پولیس کو جی ایس ایم لوکیٹرز کی فراہمی سے متعلق استفسار کیا تو اٹارنی جنرل نے جوابا موقف اپنایا کے لوکیٹرز سندھ پولیس کو دیے جارہے ہیں، جیوفینسنگ کی سہولت بھی ضرورت پڑنے پر 2 گھنٹے میں دی جاتی ہے۔

ڈیٹا تک رسائی میں مشکلات کی شکایت پر چیف جسٹس کے سوال پر چیئرمین پی ٹی اے نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ ادارے کو معلومات تک رسائی حاصل ہے، تمام اداروں کوڈیٹا تک رسائی کی سہولت تاہم میسر نہیں ہے۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ دو ہفتوں میں پولیس کو جیو فینسنگ ، لوکیٹر سسٹم اور نادرا کے ڈیٹا تک رسائی کا مسئلہ کا حل نکالا جائے،یہ معاملہ صرف سندھ کا نہیں سب کیساتھ مشترکہ بات کی جائے گی۔

جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ ہر صوبے کے اپنے مسائل اور صورتحال ہے اور عدالت چاہتی ہے کہ پولیس کو درپیش مسائل حل کئے جائیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ حکومت سندھ نے موجودہ مالی سال کے دوران پولیس کے آئی ٹی کیڈر میں 2500اسامیاں پیدا کی ہیں ۔یہ تمام اقدامات جرائم کی نگرانی اور موثر کنٹرول کے لئے معاون ثابت ہونگے ۔ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے زیرانتظام 820 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں جن میں سے صرف 17 کام کر رہے ہیں۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں لاجر بینچ نے چیف سیکرٹری کو نئے کیمروں کی تنصیب سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت جاری کرتے ہوئے سماعت 11 اگست تک ملتوی کر دی۔

متعلقہ عنوان :