ایڈیشنل آئی جی نے سپریم کورٹ میں پنجاب میں بچوں کے اغوا کی رپورٹ جمع کرادی

جمعرات 28 جولائی 2016 14:42

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔28 جولائی ۔2016ء) ایڈیشنل آئی جی پنجاب ندیم نواز نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب میں ہونے والے بچوں کے اغوا کے واقعات کی رپورٹ جمع کرادی‘سپریم کورٹ نے بچوں کے اغوا پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے پولیس کو آئندہ اغوا ہونے والے بچوں کی مکمل تحقیقات پیش کرنے کا حکم دے دیا جبکہ عدالت عظمی نے اپنے ریما کس میں کہا ہے کہ بچوں کے اغوا کا معاملہ انتہائی حساس ہے ، حقائق کی تہہ تک جائیں گے‘ بچوں کے اغوا کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ‘ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق قا ئمقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور جسٹس اقبال حمیدالرحمان نے سپر یم کورٹ لاہور رجسٹری میں کیس کی سماعت کی، ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے پراجیکٹر پر اغوا کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 2015 سے لیکرجولائی 2016 تک پنجاب میں1808بچے اغوا ہوئے جن میں سے1093 بچوں کو بازیاب کرایا گیا چھ سالوں میں 6793 بچوں کے اغوا کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6654 بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا اور 139 بچے اغوا کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے جبکہ مجموعی طور پر بچوں کے اغوا کے کیسوں میں سو میں سے 98 فیصد کی بازیابی ہوئی 2015 میں 1134 بچے اغوا اور 1093 بازیاب کرا لیے گے جبکہ 93 بچوں کی تلاش کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے پولیس کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ 2016 کے پہلے سات ماہ میں 767 کیسز رپورٹ ہوئے ۔

(جاری ہے)

جن میں 715 کیسز تکمیل کے بعد کلوز کر دیئے گئے جبکہ صرف 52 کیسز پر تفتیش جاری ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے مجموعی طور پر 93 زیر تفتیش کیسز میں سے 10کیسز کی تفتیش آئندہ سماعت تک مکمل کرنے کا حکم دیا ہے ایڈیشنل آئی جی آپریشن عارف نواز نے بتایا کہ زیادہ تر بچے لاری اڈا، ریلوے اسٹیشن اور پبلک مقامات سے ا غوا ہوئے ہیں جن کی عمریں 6 سے 15 سال تک ہیں اس پر قائمقام چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بچوں کے اغوا کا معاملہ انتہائی حساس ہے ، حقائق کی تہہ تک جائیں گے سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ کیا اغوا ہونے والے بچوں کے اعضا بھی نکالے جاتے ہیں جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ 6 سے 15 سال تک کے بچوں کے اعضا نہیں نکالے جاتے تاہم 18 سال سے بڑے افراد کے اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔

جہلم اور گجرات کے نواحی دیہاتوں میں موجود ہسپتالوں میں انسانی اعضا نکالے جاتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں ۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچوں کے اغوا کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے ہیں۔ بتایا جائے کہ کیا یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کیلئے تیار کی گئی یا وزیر اعلی کو پیش کرنے کیلئے تیا ر کی گئی ہے۔ سپریم کورٹ نے بچوں کے اغوا کی حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 3 اگست تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :