بچوں کا لا پتہ ہونا انتہائی حساس معاملہ ،اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،حقائق کی تہہ تک جائینگے ‘ سپریم کورٹ

جمعرات 28 جولائی 2016 13:34

لاہور( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔28 جولائی ۔2016ء ) سپریم کورٹ نے بچوں کے اغواء کے حوالے سے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دئیے ہیں یہ انتہائی حساس معاملہ ہے اور اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ،حقائق کی تہہ تک جائیں گے ،یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے ہیں، بتایا جائے کہ کیا یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں یا وزیر اعلی کو پیش کرنے کیلئے تیا ر کی گئی۔

قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اقبال حمید الرحمان کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سپریم کورٹ لاہو ررجسٹری میں از خود نوٹس کیس کی سماعت کی ۔ ایڈیشنل آئی جی آپریشنز ندیم نواز ،ڈی آئی جی آپریشنز لاہور ڈاکٹر حیدر اشرف ، ایس ایس پی انوسٹی گیشن حسن مشتاق سکھیرا ، اے آئی جی مانیٹرنگ محمد وقاص اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شکیل الرحمن سمیت دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں موجو د تھے ۔

(جاری ہے)

سماعت کے دوران پولیس حکام کی جانب سے فاضل بنچ کو پروجیکٹر کے ذریعے بچوں کے اغواء یا لا پتہ ہونے کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی گئی ۔سماعت کے دوران ایڈیشنل آئی جی آپریشنز کی جانب سے 6سالوں کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں بتایا گیا کہ چھ سالوں میں 6793بچوں کے اغوا ء یا لاپتہ ہونے کے مقدمات درج ہوئے جن میں سے 6654بچوں کو بازیاب کرا لیا گیا اور 139بچے اغوا ء کے کیسوں میں بازیاب نہیں ہو سکے جبکہ مجموعی طور پر بچوں کے اغوا ء کے کیسوں میں 100 میں سے 98فیصد کی بازیابی ہوئی ۔

پولیس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ جنوری 2015ء سے جولائی 2016ء تک 1808بچے اغوا یا لا پتہ ہوئے جن میں سے 1715بچے بازیاب کرائے جاچکے ہیں جبکہ 93بچے تاحال لاپتہ ہیں اور انکی بازیابی کیلئے تفتیش کا عمل جاری ہے ۔ سماعت کے دوران فاضل عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اغوا ء ہونے والے بچوں کے اعضا ء بھی نکالے جاتے ہیں جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ 6سے 15سال تک کے بچوں کے اعضا ء نہیں نکالے جاتے تاہم 18سال سے بڑے افراد کے اعضا نکال لیے جاتے ہیں۔

جہلم اور گجرات کے نواحی دیہاتوں میں موجود ہسپتالوں میں انسانی اعضا ء نکالے جاتے ہیں اور اس حوالے سے تحقیقات کررہے ہیں ۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بچوں کے اغواء کا معاملہ انتہائی حساس ہے اور اسے صرف پولیس کی رپورٹ پر نہیں چھوڑا جاسکتا ۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جاسکتی کہ والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے ہیں۔

بتایا جائے کہ کیا یہ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کیلئے تیار کی گئی یا وزیر اعلی کو پیش کرنے کیلئے تیا ر کی گئی ہے۔ حقائق کی تہہ تک جائیں گے ،اس معاملے کو بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ والدین لا پتہ بچوں کے اندراج مقدمہ کے لئے تھانوں کے چکر لگاتے ہیں۔سماعت کے دوران فاضل عدالت نے سینئر قانون عاصمہ جہانگیر کو بھی معاونت کے لئے روسٹرم پر بلایا ۔

فاضل عدالت نے عدالتی معاونین اور سول سوسائٹی کے افراد سے کہا کہ بچوں کے لاپتہ ہونے کی وجوہات اور ان کے تدارک کیلئے سفارشات مرتب کر کے یکم اگست تک سپریم کورٹ لاہو ر رجسٹری میں جمع کرائیں ۔ قائمقام چیف جسٹس نے 93زیر تفتیش کیسز میں سے 10کیسز کی تفتیش آئندہ سماعت تک مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے مزید سماعت تین اگست تک ملتوی کر دی ۔

متعلقہ عنوان :