اقتصادی راہداری منصوبہ کئی وجوہات کے باعث متنازع بنتا جارہا ہے ٗحکومت کو معاہدے کی تفصیلات ایوان میں پیش کرنی چاہئیں ٗ اراکین سینیٹ

مغربی راہداری کے دو روٹ ہیں ایک شرقی روٹ دوسرا مغربی روٹ ہے ٗپورے پاکستان میں موٹرویز کا جال بچھایا جائے گا ٗسینٹ میں خطاب احسن اقبال ایوان میں آکر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے کسی قسم کے معاہدے کے بارے میں آگاہ کریں ٗ چیئر مین سینٹ کی ہدایت

بدھ 27 جولائی 2016 22:54

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔27 جولائی ۔2016ء) اراکین سینٹ نے کہاہے کہ اقتصادی راہداری منصوبہ کئی وجوہات کے باعث متنازع بنتا جارہا ہے ٗحکومت کو معاہدے کی تفصیلات ایوان میں پیش کرنی چاہئیں جبکہ وزیر مملکت شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا منصوبہ ہے‘ توانائی بحران کے خاتمے پر 34 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے۔

بدھ کو سینٹ میں پاکستان اور چین کے درمیان معاہدے کے چیدہ نکات کے حوالے سے تحریک التواء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ایوان کو تمام تفصیلات سے آگاہ کیا جانا چاہیے‘ پارلیمنٹ سے کوئی چیز پوشیدہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت پسماندہ علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے۔

سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ سی پیک کا کوئی مخالف نہیں ہے تاہم ہمارے کچھ تحفظات ہیں‘ ہمارا مطالبہ ہے کہ سی پیک کا زیادہ سے زیادہ فائدہ گوادر اور بلوچستان کو ہونا چاہیے اور عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ کس مد میں کتنا پیسہ خرچ ہو رہا ہے؟ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ سی پیک ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس کے منصوبوں میں پسماندہ علاقوں کو خصوصی توجہ دی جائے۔

سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری سے بلوچستان کی پسماندگی کا خاتمہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کہ مغربی روٹ کو پہلی ترجیح کے طور پر مکمل کیا جانا چاہیے۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ سی پیک چین کے لئے بھی گیم چینجر ہے صرف پاکستان کے لئے نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان اور سرحد کے پسماندہ علاقوں میں تبھی کارخانے لگیں گے اگر ٹیکس میں چھوٹ اور رعایت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ معاہدہ کے مطابق یہ بتائیں کہ ان سے راہداری کتنی لیں گے۔ اور یہ بھی پتہ نہیں کہ اس روٹ پر ٹریفک کتنی ہوگی اور اس روٹ سے ریونیو کیا آئے گا۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ کے پی کے کو صرف 40 کلو میٹر راستہ مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چھوٹے صوبے آپ کے بھائی ہیں۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ جب تک ہم پختون بلوچ ایک دوسرے کو نہیں سمجھیں گے ہم سی پیک سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں ہمارے وسائل نہیں مل رہے۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ چین کے ساتھ ہمارے برادرانہ تعلقات ہیں ٗ 46 ارب ڈالر کا یہ منصوبہ ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے‘ اس کو درست انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ آئندہ نسلوں کی ترقی کیلئے بڑا اہم ہے ٗاس منصوبے کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کی جائیں۔

سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سی پیک پر صوبوں کے تحفظات ہیں ٗآل پارٹیز کانفرنس میں جو وعدے کئے گئے تھے وہ پورے کئے جائیں۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس کے کئی حصے ہیں۔ یہ صرف ایک راستہ نہیں بلکہ اس میں 35 ارب ڈالر توانائی کے بحران کے خاتمے پر صرف ہوں گے اور سب سے زیادہ صنعتیں سندھ میں لگیں گی اور سب سے زیادہ فائدہ کے پی کے کو ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہزارہ اور ڈیرہ اسماعیل خان پسماندہ ترین علاقے ہیں اور ان کو اس منصوبے سے فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج اس منصوبے پر تنقید کرنے والے کل اس کی افادیت کے گن گائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے پر بھارت کی پریشانی تو نظر آتی ہے لیکن میرے دوستوں کی پریشانی اس حوالے سے سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ کارکردگی کی بناء پر عوام ووٹ دیں گے اور کوئی حکومت عوام کی خوشحالی کے پروگراموں کو ختم نہیں کر سکتی۔

کشمیر میں آپ نے دیکھ لیا کہ جو عوام کی خواہشات کو مدنظر نہیں رکھتے ان کا کیا حال ہوتا ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ یہ منصوبہ اب کئی وجوہات کے باعث متنازعہ بنتا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو معاہدے کی تفصیلات ایوان میں پیش کرنی چاہئیں۔ سینیٹر بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ بڑے منصوبوں سے تبدیلی اس وقت آتی ہے جب اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچیں۔

انہوں نے کہا کہ سڑکیں اور عمارتیں بنانے سے قوم کی ترقی نہیں ہوتی۔ ان کی ذہنی تربیت کرنا ضروری ہوتی ہے۔ سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ جو بھی ملک یہاں سرمایہ کاری کرے گا وہ اپنا فائدہ بھی دیکھے گا۔ وہ ہماری تجویز کے مطابق زگ زیگ نہیں بنائے گا۔ یہاں ہر شخص اس روٹ کو اپنے اپنے علاقے میں بنانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کا ورکر اپنے ملک میں زیادہ خوشحال ہے یہاں کی سستی لیبر چھوڑ کر کون وہاں سے مہنگی لیبر لائے گا۔

چین ایک ایسا ملک ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ ہمیں بھی اس کا خیال رکھنا چاہیے ہم سب نے مل کر پاکستان کے بارے میں سوچنا ہے اور یہ سارا ملک ہمارا ہے۔ سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا کہ ہم سب قوم کی بہتری چاہتے ہیں۔ سی پیک پورے پاکستان کے لئے ایک عمدہ منصوبہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر دو سال گزر جانے کے باوجود ہم اس روٹ کا تعین کیوں نہ کر سکے کہ یہ کہاں سے گزرے گا۔

حکومت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے ایوان کو مکمل آگاہی فراہم کرے۔ سینیٹر داؤد اچکزئی نے کہا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے تمام تفصیلات سامنے آنی چاہئیں۔ وزیراعظم خود ایوان کو منصوبے کے حوالے سے آگاہ کریں۔ سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ بعض لوگ پنجاب پر تنقید کرکے اپنا سیاسی قد بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایوان وفاق کا نمائندہ ہے۔

شیر شاہ سوری کے بعد ہمیں ایک ایسا لیڈر ملا ہے جو خوشحالی لانا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میٹرو اور ٹرین منصوبے عوام کے فائدے کے لئے ہی ہیں‘ پنجاب پر تنقید کرنے والوں کو سندھ ‘ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ترقیاتی کاموں سے کس نے روکا ہے۔ سینیٹر مختار عاجز دھامرا نے کہا کہ سی پیک منصوبے سے پورے ملک کو فائدہ ہونا چاہیے۔ چھوٹے صوبے اگر اپنی محرومی کی بات کرتے ہیں تو یہ نہ سمجھا جائے کہ وہ کسی دوسرے صوبے کے مخالف ہیں۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کی تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سی پیک کسی ایک صوبے کا منصوبہ ہے۔ تقریباً34 ارب ڈالر توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے خرچ کئے جائیں گے اور یہ کوئی قرضہ نہیں بلکہ چین کے مالیاتی ادارے اپنی کمپنیوں کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔ کوئلے‘ ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔

پورٹ قاسم پر 1320 میگاواٹ کے دو منصوبے مکمل کئے جائیں گے اور 2017ء سے ان سے پیداوار شروع ہو جائے گی۔ تھر سے 660 میگاواٹ کے منصوبے بھی 2017ء میں مکمل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے 1320 میگاواٹ کا منصوبہ 2017ء کے آخر تکم مکمل ہو جائے گا۔ ان تین منصوبوں میں سے صرف ایک منصوبہ ساہیوال میں لگایا جارہا ہے۔پن بجلی کے منصوبوں میں سے سکی کناری مانسہرہ سے 870 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔

اس کے لئے زمین حاصل کی جارہی ہے۔ کیروٹ آزاد کشمیر میں 720 کوہالہ میں 1100 میگاواٹ کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ شمسی توانائی کا بہاولپور میں 400 میگاواٹ کا منصوبہ ہے‘ ایک سو میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے جبکہ 300میگاواٹ 2017ء میں حاصل ہوگی۔ ٹھٹھہ جھمپیر سے 200 میگاواٹ کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ مغربی اور مشرقی روٹ سے کہا گیا ہے کہ چھوٹے صوبوں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں‘ خنجراب سے برہان تک پانچ اضلاع سے سڑک گزرے گی۔

یہ سارے کا سارا منصوبہ کے پی کے میں ہے۔ای 35 برہان سے حویلیاں تک منصوبہ مکمل ہوگا تو کے پی کے کے باقی علاقوں کا ہزارہ تک فاصلہ مزید کم ہو جائے گا اور پشاور سے فاصلہ کم ہو کر ڈیڑھ گھنٹہ تک رہ جائے گا۔وفاقی وزیر نے کہا کہ مغربی راہداری کے دو روٹ ہیں ایک شرقی روٹ دوسرا مغربی روٹ ہے۔ پورے پاکستان میں موٹرویز کا جال بچھایا جائے گا۔ مغربی روٹ کے تحت پہلے منصوبہ برہان سے شروع ہونا تھا اب یہ ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خانتک مکمل کیا جائے گا۔

پانچ سیکشنوں میں سے تین سیکشنوں کا ٹھیکہ دیا جاچکا ہے اس کے بعد یہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب کے راستے گوادرسے مل جائے گا۔ اگلے دو سال میں پورا ملک اقتصادی راہداری سے جڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری میں کسی صوبے کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ پشاور سے کراچی تک ریلوں کی پٹڑی کو دو رویہ کیا جائے گا جس سے سفر میں مزید آسانی پیدا ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ گوادر میں تین برتھیں کام کر رہی ہیں۔ 80 مزید برتھیں بنائی جائیں گی۔ 22 ارب روپے کی لاگت سے نیا ایئرپورٹ‘ دو ڈیم بنائے جارہے ہیں۔ گوادر میں توانائی کے لئے بھی 300 میگاواٹ پیداوار کا منصوبہ بھی لگایا جارہا ہے جبکہ ایل این جی کے لئے ایک ٹرمینل بھی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں ایک جدید ہسپتال بھی بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ جہاں تک ٹیکس فری زون کا تعلق ہے ہماری خواہش ہے کہ دنیا کے سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ کاری کریں اور سرمایہ کاری تبھی ہوگی جب سرمایہ کاروں کو کوئی رعایت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ چاروں صوبوں میں اقتصادی زونز بھی بنائے جائیں گے اور اس سلسلے میں جگہ کا انتخاب متعلقہ وزراء اعلیٰ کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 2030ء تک کے منصوبے ہیں۔

ہم نے زراعت‘ تعلیم‘ صحت سمیت تمام شعبوں کو ترقی دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد لاہور موٹروے منصوبہ بھی جب شروع ہوا تھا تو اس پر بہت تنقید کی گئی تھی۔ اگر آج یہ موٹروے نہ ہوتی تو لاہور اور پشاور کے درمیان فاصلہ تیس گھنٹے میں طے ہوتا۔ آج موٹروے کے مخالفین بھی وزیراعظم نواز شریف کی تعریف کر رہے ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو منصوبے پر بھی بہت تنقید کی گئی لیکن آج روزانہ ڈیڑھ لاکھ افراد اس پر سفر کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی میں بھی مسافروں کی سہولت کے لئے بسیں چلائے گی۔ اس سلسلے میں منصوبے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین منصوبے سے لاہور کے شہریوں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے وژن سے ملک نے ترقی کی ہے۔ اس کو سراہا جانا چاہیے۔ جتنا احترام پنجاب کے لوگ دوسرے صوبوں کا کرتے ہیں شاید دوسرے صوبے نہیں کرتے ہوں گے۔

ادھر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے ہدایت کی کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال ایوان میں آکر چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے کسی قسم کے معاہدے کے بارے میں آگاہ کریں۔تحریک التواء پر بحث سمیٹے جانے کے بعد انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اس حوالے سے بہتر طور پر ایوان کو آگاہ کر سکتے ہیں اس لئے اگر جمعرات کو نہیں تو جمعہ کو آکر وہ ایوان کو آگاہ کریں۔

متعلقہ عنوان :