چین پاکستان اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا منصوبہ ہے‘ توانائی بحران کے خاتمے پر 34 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے‘ چاروں صوبوں میں اقتصادی زونز متعلقہ وزراء اعلیٰ کی مشاورت سے بنائے جائیں گے‘ سرمایہ کاروں کو رعایت نہیں دیں گے تو سرمایہ کاری کون کرے گا‘ پاکستان‘ بلوچستان‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کے مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا

وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد کا ایوان بالا میں تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے اظہارخیال

بدھ 27 جولائی 2016 22:00

اسلام آباد ۔ 27 جولائی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔27 جولائی ۔2016ء) وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے کا نہیں پورے ملک کا منصوبہ ہے‘ توانائی بحران کے خاتمے پر 34 ارب ڈالر خرچ کئے جائیں گے‘ اسلام آباد لاہور موٹروے پر تنقید کرنے والے بھی آج اس کی تعریف کرتے ہیں‘ چاروں صوبوں میں اقتصادی زونز متعلقہ وزراء اعلیٰ کی مشاورت سے بنائے جائیں گے‘ سرمایہ کاروں کو رعایت نہیں دیں گے تو سرمایہ کاری کون کرے گا‘ پاکستان‘ بلوچستان‘ سندھ اور خیبر پختونخوا کے مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینیٹر جہانزیب جمالدینی کی تحریک التواء پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ سی پیک کسی ایک صوبے کا منصوبہ ہے۔

(جاری ہے)

تقریباً34 ارب ڈالر توانائی کے بحران کے خاتمے کے لئے خرچ کئے جائیں گے اور یہ کوئی قرضہ نہیں بلکہ چین کے مالیاتی ادارے اپنی کمپنیوں کو معاونت فراہم کر رہے ہیں۔

کوئلے‘ ہوا اور شمسی توانائی کے منصوبوں پر کام شروع کیا گیا ہے۔ پورٹ قاسم پر 1320 میگاواٹ کے دو منصوبے مکمل کئے جائیں گے اور 2017ء سے ان سے پیداوار شروع ہو جائے گی۔ تھر سے 660 میگاواٹ کے منصوبے بھی 2017ء میں مکمل ہو جائیں گے۔ اس کے علاوہ ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے 1320 میگاواٹ کا منصوبہ 2017ء کے آخر تکم مکمل ہو جائے گا۔ ان تین منصوبوں میں سے صرف ایک منصوبہ ساہیوال میں لگایا جارہا ہے۔

پن بجلی کے منصوبوں میں سے سکی کناری مانسہرہ سے 870 میگاواٹ بجلی حاصل ہوگی۔ اس کے لئے زمین حاصل کی جارہی ہے۔ کیروٹ آزاد کشمیر میں 720 کوہالہ میں 1100 میگاواٹ کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔ شمسی توانائی کا بہاولپور میں 400 میگاواٹ کا منصوبہ ہے‘ ایک سو میگاواٹ بجلی حاصل ہو رہی ہے جبکہ 300میگاواٹ 2017ء میں حاصل ہوگی۔ ٹھٹھہ جھمپیر سے 200 میگاواٹ کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ مغربی اور مشرقی روٹ سے کہا گیا ہے کہ چھوٹے صوبوں کو ان سے کوئی فائدہ نہیں‘ خنجراب سے برہان تک پانچ اضلاع سے سڑک گزرے گی۔ یہ سارے کا سارا منصوبہ کے پی کے میں ہے۔ای 35 برہان سے حویلیاں تک منصوبہ مکمل ہوگا تو کے پی کے کے باقی علاقوں کا ہزارہ تک فاصلہ مزید کم ہو جائے گا اور پشاور سے فاصلہ کم ہو کر ڈیڑھ گھنٹہ تک رہ جائے گا۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ مغربی راہداری کے دو روٹ ہیں ایک شرقی روٹ دوسرا مغربی روٹ ہے۔ پورے پاکستان میں موٹرویز کا جال بچھایا جائے گا۔ مغربی روٹ کے تحت پہلے منصوبہ برہان سے شروع ہونا تھا اب یہ ہکلہ سے ڈیرہ اسماعیل خانتک مکمل کیا جائے گا۔ پانچ سیکشنوں میں سے تین سیکشنوں کا ٹھیکہ دیا جاچکا ہے اس کے بعد یہ ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب کے راستے گوادرسے مل جائے گا۔

اگلے دو سال میں پورا ملک اقتصادی راہداری سے جڑ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری میں کسی صوبے کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ پشاور سے کراچی تک ریلوں کی پٹڑی کو دو رویہ کیا جائے گا جس سے سفر میں مزید آسانی پیدا ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں تین برتھیں کام کر رہی ہیں۔ 80 مزید برتھیں بنائی جائیں گی۔ 22 ارب روپے کی لاگت سے نیا ایئرپورٹ‘ دو ڈیم بنائے جارہے ہیں۔

گوادر میں توانائی کے لئے بھی 300 میگاواٹ پیداوار کا منصوبہ بھی لگایا جارہا ہے جبکہ ایل این جی کے لئے ایک ٹرمینل بھی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں ایک جدید ہسپتال بھی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ٹیکس فری زون کا تعلق ہے ہماری خواہش ہے کہ دنیا کے سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ کاری کریں اور سرمایہ کاری تبھی ہوگی جب سرمایہ کاروں کو کوئی رعایت ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ چاروں صوبوں میں اقتصادی زونز بھی بنائے جائیں گے اور اس سلسلے میں جگہ کا انتخاب متعلقہ وزراء اعلیٰ کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ 2030ء تک کے منصوبے ہیں۔ ہم نے زراعت‘ تعلیم‘ صحت سمیت تمام شعبوں کو ترقی دینی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد لاہور موٹروے منصوبہ بھی جب شروع ہوا تھا تو اس پر بہت تنقید کی گئی تھی۔

اگر آج یہ موٹروے نہ ہوتی تو لاہور اور پشاور کے درمیان فاصلہ تیس گھنٹے میں طے ہوتا۔ آج موٹروے کے مخالفین بھی وزیراعظم نواز شریف کی تعریف کر رہے ہیں۔ اسی طرح راولپنڈی اسلام آباد میں میٹرو منصوبے پر بھی بہت تنقید کی گئی لیکن آج روزانہ ڈیڑھ لاکھ افراد اس پر سفر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کراچی میں بھی مسافروں کی سہولت کے لئے بسیں چلائے گی۔

اس سلسلے میں منصوبے کو حتمی شکل دی جاچکی ہے۔ لاہور میں اورنج لائن ٹرین منصوبے سے لاہور کے شہریوں کو فائدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے وژن سے ملک نے ترقی کی ہے۔ اس کو سراہا جانا چاہیے۔ جتنا احترام پنجاب کے لوگ دوسرے صوبوں کا کرتے ہیں شاید دوسرے صوبے نہیں کرتے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت بلوچستان‘ سندھ اور کے پی کے کے مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ڈیرہ اسماعیل خان منصوبہ ہمارا اپنا منصوبہ ہے۔ اس میں چین کی کوئی سرمایہ کاری نہیں ہے۔