صوبوں نے وفاق کو بجلی کے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں‘ سندھ 10 ارب روپے ادا کرنے کے بعد پیچھے ہٹ گیا‘ آزاد کشمیر کے ذمہ 63 ارب روپے اور بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کے ذمے 120 ارب روپے واجب الادا ہیں‘ سندھ ہائیکورٹ نے واسا کا کنکشن منقطع کرنے سے منع کر رکھا ہے‘ بعض علاقے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں‘ پولیس اور صوبائی محکمے بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے میں تعاون نہیں کرتے

سینیٹ میں و فاقی وزراء شاہد خاقان ، سردار یوسف ریاض پیرزادہ اوروزیر مملکت عابد شیر علی کے ارکان کے سوالوں کے جواب

بدھ 27 جولائی 2016 20:51

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 جولائی ۔2016ء) سینیٹ میں حکومت نے ایوان کو آگا کیا ہے کہ صوبوں نے وفاق کو بجلی کے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں‘ سندھ 10 ارب روپے ادا کرنے کے بعد پیچھے ہٹ گیا‘ آزاد کشمیر کے ذمہ 63 ارب روپے اور بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کے ذمے 120 ارب روپے واجب الادا ہیں‘ سندھ ہائیکورٹ نے واسا کا کنکشن منقطع کرنے سے منع کر رکھا ہے‘ بعض علاقے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں‘ پولیس اور صوبائی محکمے بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے میں تعاون نہیں کرتے ۔

پی ایس او کا گردشی قرضہ 146 ارب 60 کروڑ روپے ہے‘ حکومت نے کوشش کی ہے کہ گردشی قرضے میں کمی لائی جائے‘ پچھلے ڈیڑھ سال میں اس میں اضافہ نہیں ہوا۔اسلام آباد میں لڑکیوں کو دینی تعلیم کی فراہمی کے لئے ایک ماڈل دینی مدرسہ 2002سے کام کر رہا ہے ‘ حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دینی مدارس قائم کئے جائیں۔

(جاری ہے)

سرکاری ملازمین کو مکانات کی الاٹمنٹ کے لئے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات ہیں‘ کسی کو آؤٹ آف ٹرم الاٹمنٹ نہیں کی گئی۔

وزارت ہاؤسنگ میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کی تعداد 10 ‘ سٹیٹ آفس میں کام کرنے والوں کی تعداد 11 ہے‘ ڈیپوٹیشن پر کسی دوسرے محکمہ میں افسران اور اہلکاروں کی تعیناتی کوئی غلط اقدام نہیں۔ 2008ء کے مقابلے میں 2013ء کے عام انتخابات پر اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے‘ تمام اخراجات کی آڈٹ رپورٹ ایوان میں پیش کردی جائے گی۔

بدھ کوایوان میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی،وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف ،وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ اوروزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے ارکان کے سوالوں کے جواب دئیے۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان‘ اعظم سواتی کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے ایوان کو بتایا کہ اسلام آباد میں لڑکیوں کو دینی تعلیم فراہم کرنے کے لئے ایک ماڈل دینی مدرسہ قائم کیا گیا جو 2002ء سے کام کر رہا ہے۔

اس مدرسے میں 450 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی دینی مدارس قائم کئے جائیں۔ اس طرح مدارس بنانے کا مقصد یہ ہے کہ دوسرے مدارس کو بھی اس کے ساتھ منسلک کیا جائے تاہم دوسرے مدارس کے منتظمین نے ابھی تک ہمارے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ کسی دوسرے صوبے سے فی الحال اس سلسلے میں تعاون کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔

سینیٹر کلثوم پروین‘ اعظم سواتی اور سینیٹر سراج الحق کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے ایوان کو بتایا کہ وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات میں ڈیپوٹیشن پر کام کرنے والے افسران اور اہلکاروں کی تعداد 10 اور سٹیٹ آفس میں کام کرنے والوں کی تعداد 11 ہے۔ ڈیپوٹیشن پر کسی دوسرے محکمہ میں افسران اور اہلکاروں کی تعیناتی کوئی غلط اقدام نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ملازمین کو جہاں مالی مفاد نظر آئے گا۔ اس محکمے میں جائے گا لیکن حکومت اگر ڈیپوٹیشن پر پابندی لگا دے تو پھر کوئی بھی ملازم دوسرے محکمے میں نہیں جاسکے گا۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان اور سینیٹر اعظم سواتی کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں رضا حسین پیرزادہ نے ایوان کو بتایا کہ 2008ء کے مقابلے میں 2013ء کے عام انتخابات پر اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام اخراجات کی آڈٹ رپورٹ ایوان میں پیش کردی جائے گی۔ الیکشن کمیشن ایک آزاد ادارہ ہے ان کا آڈٹ کا اپنا نظام ہے۔ اس کی تفصیلات طلب کی جاسکتی ہیں۔ سینیٹر تنویر خان‘ الیاس احمد بلور اور رحمان ملک کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر پٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے ایوان کو بتایا کہ اس وقت پی ایس او کا گردشی قرضہ 146 ارب 60 کروڑ روپے ہے جن میں سے حکومت کے ذمہ 9 ارزب 60 کروڑ روپے جبکہ واپڈا‘ پیپکو‘ حبکو اور کیپکو کے ذمہ 555 ارب روپے کے کلیمز ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گردشی قرضے جو جنوری 2015ء کے آغاز پر 181 ارب روپے تھا جو اب کم ہو کر 146 ارب روپے پر آگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کوشش کی ہے کہ گردشی قرضے میں کمی لائی جائے۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں اس میں اضافہ نہیں ہونے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے جنوری 2015ء میں بجلی کے شعبے کی طرف سے 40 ارب فراہم کئے۔ سات فروری 2015ء سے 20 جولائی 2016ء کے درمیان پی ایس او کی جانب سے بجلی کے شعبے کو 308 ارب روپے میں سے 293 ارب روپے کی ادائیگی کی جاچکی ہے۔

سینیٹر چوہدری تنویر خان‘ نعمان وزیر‘ عثمان کاکڑ‘ مختار عاجز دھامرا اور الیاس احمد بلور کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری اداروں کی ایک بڑی تعداد بجلی کے واجبات کی نادہندہ ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبائی محکموں اور اداروں سے مل کر اعداد و شمار اکٹھے کریں۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں نے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ سندھ نے 73 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس میں واسا اور دیگر محکموں کے واجبات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیسکو اور سیپکو کمپنیوں کو واسا نے ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان کے بجلی کے کنکشن منقطع کرنے سے پانی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے 63 ارب روپے دینے ہیں۔ سندھ حکومت دس ارب روپے کی ادائیگی کرکے پیچھے ہٹ گئی۔

انہوں نے کہا کہ واجبات کی عدم ادائیگی پر سپریم کورٹ اور سی ڈی اے کی بجلی بھی منقطع کی ہے۔ بعض نادہندگان سے وصولی کے لئے ہم نے نیب سے بھی رجوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ واسا سمیت عوامی خدمات کے محکموں کے واجبات منقطع نہ کئے جائیں۔ واجبات کی وصولی اور بجلی چوری کی روک تھام میں بہت سی مشکلات ہیں۔ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے 120 ارب روپے کے واجبات واجب الادا ہیں۔

کسان اتحاد نے بھی واجبات ادا کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے کہ اسے اڑھائی روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے گی اور باقی بوجھ حکومت برداشت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقے نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں۔ بجلی کمپنیوں کو پولیس اور متعلقہ محکمے تحفظ فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے وفاقی اداروں سے مدد لینا پڑتی ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ صوبوں کے ساتھ معاملات حل کئے جائیں تاکہ کسی کو پریشان نہ کرنا پڑے۔ سکھر میں ہمیں رینجرز کی بھی مدد لینا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ جب وصولی کے لئے مذاکرات کئے گئے تو سندھ کو چار ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ سندھ حکومت واجبات ادا کرے۔ ان کے جائز تحفظات دور کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بجلی کی رائلٹی کی مد میں 70 ارب روپے ادا کئے ہیں۔

سینیٹر مختار عاجز دھامرا اور سعید الحسن مندوخیل کے سوالات کے جواب میں وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری ملازمین کو مکانات کی الاٹمنٹ کے لئے سپریم کورٹ کی واضح ہدایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آڈٹ آف ٹرن کسی کو الاٹمنٹ نہیں کی جارہی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں وزارت ہاؤسنگ و تعمیرات کے پلاٹ پر قبضہ کے حوالے سے شکایات درست ہوئیں تو کارروائی کی جائے گی۔