ترکی میں ناکام بغاوت کے اثرات فوری طور پر پاکستان پر نہیں پڑے گا ،آئی پی آر

دونوں ممالک کے سیاسی اداروں اور ان کے ارتقاء میں بہت فرق ہے پاکستان میں منتخب نمائندوں کی کار کردگی اچھی نہیں ہے ،عوام ملک کی بہتری کیلئے اچھے اقدامات کی توقع کرتے ہیں،۔تھنک ٹینک آئی پی آرکی تجزیاتی رپورٹ

بدھ 27 جولائی 2016 20:23

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 جولائی ۔2016ء) تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے ترکی میں بغاوت کی کوشش پر” ترکی کیلئے مشکل وقت“ کے عنوان سے ایک تجزیاتی رپورٹ جاری کی ہے ۔رپورٹ کے مطابق ترکی میں ناکام بغاوت کے اثرات فوری طور پر پاکستان پر نہیں پڑے اور نہ ہی آئینی حکومت کیلئے فوری طور پر کوئی خطرہ ہے۔آئی پی آر کی رپورٹ میں ترکی میں ہونیوالی بغاوت کی ممکنہ وجوہات بھی بتائی گئی ہیں جن کے مطابق ترکی میں لوگوں کی واضح اکثریت اس لیے فکر مند تھی کہ ترکی بائیں بازو سے دائیں بازو میں تبدیل ہو گیاہے اس وجہ سے ترک فوج ناخوش تھی نیز ترکی کے تعلقات ہمسائے ممالک کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے تھے خاص طور پر ترکی کی شام کے بحران میں ملوث ہونے کی وجہ سے پیدا ہونیوالے اثرات فوج پر برا اثر ڈال رہے تھے ۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ صدر اردگان کیطرف سے اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل بھی آرمی آفیسرز کیلئے ایک اور خطرہ کی گھنٹی سے کم نہ تھی ۔رپورٹ کے مطابق ترکی میں سماجی اور سیاسی تقسیم کھل کر سامنے آگئی ہے تاہم سیاسی قیادت کی طرف سے کئی سالوں سے جاری معاشی اصلاحات کے فوائد بھی وسیع پیمانے پر عوام تک پہنچ رہے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق ترکی کو اس ناکام بغاوت کے اثرات کافی عرصے تک بھگتنیں پڑینگے ۔

اس بغاوت میں کون جیتا کون ہارا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن ترکی نے ایک ملک کی حیثیت سے بہت کچھ کھویا ہے۔اگر اس کے مثبت پہلو کو دیکھا جائے تو تمام سیاسی جماعتوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کراس بغاوت کو ناکام کیا ہے لہذا اب ترکی کے صدر اردگان کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ملک کے اندر سماجی اور سیاسی تقسیم کو کم کرتے لیکن انہوں نے اس طرف توجہ دینے کی بجائے سخت اقدام اٹھا کرملک کو ایک اور مشکل میں ڈال دیا ہے۔

ترکی میں ایمرجنسی کی حکومت ہے 42 سرکردہ صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے 50ہزار سے زیاد لوگوں میں سے کچھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بقایا کو نوکری سے فارغ کر دیا گیا ہے۔ خود صدر اردگان کی پارٹی میں کچھ ایسے سپورٹر زبھی ہیں جو ملک کو دائیں بازو کیطرف دھکیل رہے ہیں جبکہ اسی پارٹی میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے اتا ترک کے وژن کو لیکر آگے چلنا چاہتے ہیں ۔

آئی پی آر کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ترکی میں ناکام بغاوت کے فوری اثرات پاکستان پر نہیں پڑے کیونکہ دونوں ممالک کے سیاسی اداروں اور ان کے ارتقاء میں بہت فرق ہے۔ ترکی کے بر عکس جہاں پر اسلام پسندوں اور سیکولر ازم کیلئے سیاسی خلاء موجود ہے پاکستان میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ترکی کے صدر اردگان کی پارٹی اے کے پی سیاسی اسلام کی پیداوار ہے اس کی پارٹی مغرب کے خلاف جذبات رکھتی ہے اور مذہب ہی اس کی حمایت کی بنیاد ہے۔

جبکہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے اور یہاں پر لیڈرز کا کوئی آ ٓئیڈیل بھی نہیں ہے اور نہ ہی حکومت کی کار کردگی اچھی ہے۔ پاکستان کی عوام منتخب حکومت اور غیر آئینی حکومت سے بھی اچھی امیدیں لگائی بیٹھی ہے اور ملک کی بہتری کیلئے اچھے اقدامات کی توقع کرتے ہیں تاہم ماضی میں دونوں طرح کی حکومتوں نے عوام کیلئے کچھ فائدہ مند کام کیے ہیں تاہم آئی پی آر کی یہ رپورٹ ملک میں خطرہ کی گھنٹی بھی بجا رہی ہے کیونکہ حکومت کے منتخب لوگوں کی طرف ملک میں تعمیر و ترقی میں ناکامی ، لوگوں کا معیار زندگی بہترنہ بنانا اور انصاف کی عدم فراہمی کی وجہ سے لوگ متباد ل کی طرف دیکھتے ہیں ۔

ملک میں قانون پر عملداری کی ناکامی کی وجہ سے ملک کے اندر عد م تحفظ اور غیریقینی کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے ۔ایسے حالات غیر ریاستی عناصر کو فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں ۔آئی پی آر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں اس لحاظ سے کمزور ریاستیں ہیں کہ ان کی ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت بہت زیادہ ہے مثال کے طور پر پاکستان کی افغانستان اور ترکی کی شام میں مداخلت اس چیز کا منہ بولتا ثبوت ہیں انہی وجوہات کی بناء پر دونوں ملک غیر محفوظ ہو گئے ہیں لہذا پاکستان کو چاہیے کہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے کرے اور اپنی سرحدوں کو محفوظ بنائے۔

اسلحہ صرف ریاستی اداروں کے پاس ہونا چاہیے نہ کہ اس کے ذریعے غیر سرکاری ملائشیاء کو مسلح کیا جائے ۔

متعلقہ عنوان :