ایک سال میں 3600 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کرنا حکومت کا کارنامہ ہو گا،امریکی ٹیکنالوجی سے آراستہ بجلی گھر نصف گیس استعمال کرینگے، معیشت ترقی کرے گی،ایل این جی کی درآمد میں نجی شعبے کی حوصلہ شکنی سے مسابقت ختم ہو گئی

پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر میاں زاہد حسین کا بیان

بدھ 27 جولائی 2016 17:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔27 جولائی ۔2016ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینیئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ ایک سال کے اندر اندر تین ایل این جی پاور پلانٹس کام شروع کر دینگے جس سے سسٹم میں 3600 میگاواٹ بجلی شامل ہو جائے گی جو موجودہ حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔

اس کے نتیجے میں موسم گرما میں بجلی کا شارٹ فال نصف رہ جائے گا۔ چینی کمپنیوں اور امریکی ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے جانے والے یہ جدید بجلی گھر ملک میں پہلے سے گیس پر چلنے والے بجلی گھروں کے مقابلے میں نصف گیس استعمال کرینگے جو سستی بجلی کا ذریعہ ہو گا۔میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ ایل این جی کی درآمد میں اضافے سے سی این جی اسٹیشنز، فرٹیلائیزرسیکٹر، ٹیکسٹائل انڈسٹری اور جنرل انڈسٹری کو بھی گیس کی سپلائی بڑھادی جا ئے گی جس سے پیداوار، روزگار، محاصل اور مجموعی صورتحال پر بہتر اثر پڑے گا جبکہ زراعت کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے گا۔

(جاری ہے)

انھوں نے کہا کہ حکومت نے قطر گیس سے ایل این جی کی سپلائی کا پندرہ سالہ معاہدہ کیا ہوا ہے جس کے تحت برینٹ کروڈ آئل کی قیمت کے مقابلے میں 13.35 فیصد ادائیگی کی جا رہی ہے تاہم اگر نجی شعبے کو ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے تو مسابقت کے سبب قیمتوں میں مزید کمی ممکن ہے جس کا فائدہ صنعتی و زرعی شعبے اور عوام کو پہنچے گا اور شکوک و شبہات کی فضاء ختم ہو جائے گی جبکہ افواہیں از خود دم توڑ دینگی۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں حکومتی کمپنیوں کی مناپلی ملک مفاد کے خلاف ہے جس نے ترقی کے عمل کو روک رکھا ہے۔ایک طرف سرکاری اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے تو دوسری طرف مسابقت کے خاتمہ کیلیئے ایل این جی کی سرکاری کمپنیاں بنائی جا رہی ہیں جس کے اخراجات کو گیس کی درآمدی قیمت میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو عوام پر ظلم ہے۔

انھوں نے کہا کہ مقامی گیس عوام کو فراہم کی جانی چاہیئے جبکہ درآمد شدہ گیس صنعتی و کمرشل صارفین کو بیچی جائے تاہم گیس کمپنیوں کو مختلف حیلے بہانوں سے معاملات میں روڑے اٹکانے اورلوٹ مار کی اجازت نہ دی جائے جبکہ اوگرا کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔ انھوں نے کہا کہ گیس کی درآمد کے عمل میں سرکاری افسران کی کرپشن یا نا اہلی سے ہونے والے نقصانات کو خاموشی سے صارفین پر ڈالنے کا کلچر ختم کیا جائے۔ گیس کمپنیوں کی لوٹ مار سے عوام کو بچانے کیلیئے انھیں ضلعی سطح پر تقسیم کرنے سے اس شعبے میں شفافیت آ سکتی ہے جبکہ مافیا راج ختم ہو جائے گا۔