صوبوں نے بجلی کے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں‘ وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی

بدھ 27 جولائی 2016 17:13

اسلام آباد ۔ 27 جولائی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔27 جولائی ۔2016ء) وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا ہے کہ صوبوں نے بجلی کے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں‘ سندھ 10 ارب روپے ادا کرنے کے بعد پیچھے ہٹ گیا‘ آزاد کشمیر کے ذمہ 63 ارب روپے اور بلوچستان کے ٹیوب ویلوں کے ذمے 120 ارب روپے واجب الادا ہیں‘ سندھ ہائیکورٹ نے واسا کا کنکشن منقطع کرنے سے منع کر رکھا ہے‘ بعض علاقے نو گو ایریاز بنے ہوئے ہیں‘ پولیس اور صوبائی محکمے بجلی کمپنیوں کے ملازمین کو تحفظ فراہم کرنے میں تعاون نہیں کرتے۔

بدھ کو ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر چوہدری تنویر خان‘ نعمان وزیر‘ عثمان کاکڑ‘ مختار عاجز دھامرا اور الیاس احمد بلور کے سوالات کے جواب میں وزیر مملکت برائے پانی و بجلی عابد شیر علی نے ایوان کو بتایا کہ سرکاری اداروں کی ایک بڑی تعداد بجلی کے واجبات کی نادہندہ ہے۔

(جاری ہے)

ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبائی محکموں اور اداروں سے مل کر اعداد و شمار اکٹھے کریں۔

انہوں نے کہا کہ صوبوں نے 154 ارب روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں۔ سندھ نے 73 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس میں واسا اور دیگر محکموں کے واجبات بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حیسکو اور سیپکو کمپنیوں کو واسا نے ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان کے بجلی کے کنکشن منقطع کرنے سے پانی کا مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کی حکومت نے 63 ارب روپے دینے ہیں۔ سندھ حکومت دس ارب روپے کی ادائیگی کرکے پیچھے ہٹ گئی۔

انہوں نے کہا کہ واجبات کی عدم ادائیگی پر سپریم کورٹ اور سی ڈی اے کی بجلی بھی منقطع کی ہے۔ بعض نادہندگان سے وصولی کے لئے ہم نے نیب سے بھی رجوع کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ ہائی کورٹ کا حکم ہے کہ واسا سمیت عوامی خدمات کے محکموں کے واجبات منقطع نہ کئے جائیں۔ واجبات کی وصولی اور بجلی چوری کی روک تھام میں بہت سی مشکلات ہیں۔ بلوچستان میں ٹیوب ویلوں کے 120 ارب روپے کے واجبات واجب الادا ہیں۔

کسان اتحاد نے بھی واجبات ادا کرنے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے کہ اسے اڑھائی روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فراہم کی جائے گی اور باقی بوجھ حکومت برداشت کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ بعض علاقے نوگو ایریاز بنے ہوئے ہیں۔ بجلی کمپنیوں کو پولیس اور متعلقہ محکمے تحفظ فراہم نہیں کرتے جس کی وجہ سے وفاقی اداروں سے مدد لینا پڑتی ہے۔

ہماری کوشش ہے کہ صوبوں کے ساتھ معاملات حل کئے جائیں تاکہ کسی کو پریشان نہ کرنا پڑے۔ سکھر میں ہمیں رینجرز کی بھی مدد لینا پڑی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے ساتھ جب وصولی کے لئے مذاکرات کئے گئے تو سندھ کو چار ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ سندھ حکومت واجبات ادا کرے، ان کے جائز تحفظات دور کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے بجلی کی رائلٹی کی مد میں 70 ارب روپے ادا کئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :