مری:ایک ماہ گزرنے کے باوجود پانچ افراد کے ہاتھوں جلائی جانیوالی لڑکی کا معمہ حل نہ ہو سکا،متاثرین انصاف کے منتظر

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی تفتیش بھی ناقص رہی ،مقدمہ لاہور بھجوا دیا گیا

بدھ 27 جولائی 2016 16:24

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔27 جولائی۔2016ء) ایک ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود مری کے جنگل میں پانچ افراد کے ہاتھو ں مبینہ طور پر جلائی جانیوالی لڑکی ماریہ کے قتل کامعمہ حل نہ ہو سکا ،مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تفتیش میں ناکام رہی اور مقدمہ لاہور بھجوا دیا ،متاثرین غربت کے باعث گھر میں بیٹھ گئے اور انصاف تاحال منتظر ہیں جبکہ مقتولہ کے اصل ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں ۔

تفصیلات کے مطابق مری کے جنگل میں پانچ افراد کے ہاتھو ں مبینہ طور پر جلائی جانیوالی لڑکی ماریہ کے قتل کا معمہپولیس کی ناقص تفتیش اور خاندانی غربت کے باعث انصاف کی منزل سے میلوں دور دکھائی دیتاہے ۔ قتل کی واحد گواہ ماریہ کی چھ سالہ چھوٹی بہن حبیبہ کی گواہی کو بھی پولیس نے یکسر نظر انداز کردیا ہے ۔

(جاری ہے)

ماریہ کی چھوٹی بہن حبیبہ نے آن لائن کو سہمے ہوئے لہجے میں بتایا کہ میری بہن کو مارنے والے پانچ لوگ تھے انہوں نے کہا کہ گھر کے باہر پہلے ڈنڈوں سے تشدد کیا اور پھر پٹرول چھڑک کر آگ لگائی ۔

ماریہ کے والد صداقت نے بتایا کہ وقوعہ کے وقت میں سامنے والی پہاڑی پر فوتگی کی وجہ سے گیا ہوتھا میرے رشتہ داروں نے مجھے فون کرکے اطلاع دی ماریہ نے مجھے کہا کہ پاپا مجھے ماسٹر شوکت اور اس کے لوگوں نے جلایا ہے مقامی ہسپتال میں سو سے زائد افراد کے سامنے ماریہ نے اپنا بیان دوہرایا ۔ واْقعے کی چشم دید گواہ ماریہ کی چھوٹی چھ سالہ بہن حبیبہ ہے ۔

صداقت نے بتایاکہ ایمرجنسی کی وجہ سے انہوں نے ایمولینس کا سہارا لیا اور اپنی بیٹی کو لیکر پھگواڑی ہسپتال لیکر گیا جہاں سے انہیں پمز ہسپتال اسلام آباد منتقل کیا گیا، ۔انہوں نے مزید بتایا کہ پولیس نے بھاری رشوت لے رکھی تھی انہوں نے کیس میں دلچسپی ہی نہ لی ہے ۔ مقدمہ کے تفتیشی سب انسپکڑ مظہر اکرام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے کیس کی تفتیش غیر جانبدارانہ طریقے سے کی تھی مگر اب کیس لاہور شفٹ ہو گیا ہے ۔تھانہ کے ایس ایچ او ثناء اللہ خان سے رابطہ نہ ہو سکا ۔

متعلقہ عنوان :