انڈونیشیا میں سزائے موت کے منتظر پاکستانی کو بچانے کی کوششیں

حکومت نے سفارتی کوششیں تیز کردیں ، پاکستان میں تعینات انڈونیشین سفیر دفتر خا رجہ طلب ،موت کے منتظر پاکستانی شہری کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے خدشات اپنی حکومت کو پہنچائیں۔ ترجمان دفتر خارجہ

منگل 26 جولائی 2016 12:40

لاہور / اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔26 جولائی۔2016ء) حکومت نے انڈونیشیا میں منشیات سے متعلق الزامات پر سزائے موت کے منتظر پاکستانی شہری ذوالفقار علی کو بچانے کیلئے سفارتی کوششیں تیز کردی ہیں۔ایک سفارتکار نے بتایا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایسٹ ایشین نیشنز(آسایان) کے ریجنل فورم اجلاس میں شرکت کیلئے لاؤس میں موجود ہیں انہوں نے مزید بتایا کہ وہ پاکستانی شہری کی سزائے موت کے حوالے سے اپنے انڈونیشین ہم منصب رینٹو مارسوڈی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان میں تعینات انڈونیشین سفیر ایوان سویودھی امری کو بھی اس حوالے سے دفتر خارجہ میں طلب کیا جاچکا ہے۔دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے بتایا کہ اسلام آباد میں موجود انڈونیشین سفیر کو وزارت خارجہ نے طلب کیا تھا اور انہیں کہا تھا کہ وہ موت کے منتظر پاکستانی شہری کے حوالے سے پاکستانی حکومت کے خدشات اپنی حکومت کو پہنچائیں۔

(جاری ہے)

ذوالفقار علی گزشتہ 12 برس سے انڈونیشیا کی جیل میں تھا اور اب انڈونیشین حکام اس کی سزائے موت پر عمل کرنے والے ہیں۔انسانی حقوق کیلئے سرگرم قانونی فرم دی جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے صدر پاکستان سے اپیل کی ہے کہ وہ انڈونیشیا میں پاکستانی شہری کی سزائے موت کا معاملہ انڈونیشین حکومت کے سامنے اٹھائیں اور اس کی جانب بچانے میں کردار ادا کریں۔

52 سالہ ذوالفقار کو نومبر 2004 میں 300 گرام ہیرون کی اسمگلنگ کے کیس میں جکارتہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔اس کیس میں شریک ملزم گردیپ سنگھ ابتداء میں ذوالفقار علی کے خلاف دیے گئے بیان سے مکر چکا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ بیان اس سے زبردستی لیا گیا تھا۔جے پی پی کا کہنا ہے کہ انڈونیشین پولیس ذوالفقار پر عائد الزامات کو ثابت کرنے کیلئے کوئی مادی شواہد پیش نہیں کرسکی ہے لیکن اس کے باوجود جکارتہ میں پاکستانی سفارتخانے کو نوٹی فیکیشن بھیجا گیا ہے کہ ذوالفقار علی کو جلد سزائے موت دے دی جائے کہ اور اس کی فیملی کو 72 گھنٹے قبل آگاہ کردیا جائے گا۔

ذوالفقار علی کو مغربی صوبے جاوا میں واقع ان کے گھر سے بغیر وارنٹ کے گرفتار کیا گیا تھا، تین دن تک سوئیکارنو ہٹا ایئرپورٹ ڈسٹرکٹ کی پولیس نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے رہے اور پھر اس سے اعترافی بیان پر دستخط کرالیے گئے۔جے پی پی کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر ذوالفقار کو پولیس اسٹیشن سے باہر لے جایا گیا اور انہیں دھمکی دی گئی کہ اسے کار سے باندھ کر گھسیٹا جائے گا۔

قانونی فرم جے پی پی نے مزید بتایا کہ ذوالفقار پر ہونے والے جسمانی تشدد کی وجہ سے اسے معدے اور گردوں کی ہنگامی سرجری بھی کرانی پڑی اور وہ ہسپتال میں 17 روز زیر علاج رہا۔ہسپتال میں آنے والے تمام اخراجات بھی علی کے اہل خانہ کو ہی برداشت کرنے پڑے اور اب بھی علی کو تشدد کی وجہ سے صحت کے متعدد مسائل کا سامنا ہے۔جے پی پی کا کہنا ہے کہ چھ بچوں کے والد ذوالفقار کو ایک ماہ تک وکیل فراہم نہیں کیا گیا اور پاکستانی سفارتخانے سے بھی کسی نے اس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی، تین ماہ جیل میں رکھنے کے بعد اسے پہلی بار عدالت میں پیش کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :