مفتی احتشام الحق اور ان کے جوانسال بیٹے کو دن دیہاڑے قتل کیاگیا، مذہبی، سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ پایاجاتاہے، بلوچستان کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں ،صوبے میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال، بے گناہ افراد کے قتل عام اور اغواء برائے تاوان روز کا معمول بن چکے ہیں ، بلوچستان صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں جمعیت علماء اسلام او ردیگر ارکان اسمبلی کی تقاریر

پیر 25 جولائی 2016 20:47

کوئٹہ ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔25 جولائی ۔2016ء ) جمعیت علماء اسلام ضلع کیچ کے سابقہ امیر مفتی احتشام الحق اور ان کے صاحب زادے مولانا شبیر احمدکے قتل کے خلاف بلوچستان صوبائی اسمبلی کے پیر کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر اور جمعیت علماء اسلام کے پارلیمانی لیڈر مولانا عبدالواسع جمعیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی مفتی معاذ اﷲ موسیٰ خیل ، مفتی گلاب خان کاکڑ کی تحریک التواء دو گھنٹے کے لئے منظور کرلی گئی ۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان صوبائی کا اجلاس حسب روایت 4بجے کی بجائے 4بجھ کر 45منٹ پر اسپیکر محترمہ راحیلہ حمید خان درانی کی صدار ت میں شروع ہوا۔ اجلاس میں جبکہ بلوچستان ایمپلائز ایفیشنسی اینڈ ڈسپلن کا مسودہ قانون متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیاگیا ۔

(جاری ہے)

اجلاس میں جمعیت علماء اسلام کے رکن مولوی معاذ اﷲ موسیٰ خیل نے مفتی گلاب خان کاکڑ ، مولانا عبدالواسع کی مشترکہ تحریک التواء ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ 24جولائی2016ء کو تربت میں مفتی احتشام الحق اور ان کے جوانسال بیٹے مولانا شبیر احمد کو دن دیہاڑے نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے شہید کردیا جس سے مذہبی سیاسی اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ تشویش پائی جاتی ہے اور ساتھ ہی بلوچستان کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوگئے ہیں صوبے میں امن وامان کی بگڑتی صورتحال، بے گناہ افراد کے قتل عام اور اغواء برائے تاوان روز کا معمول بن چکے ہیں لہٰذا اسمبلی کی کارروائی روک کرکے اس اہم اور فوری نوعیت کے حامل مسئلے کو زیر بحث لایا جائے ،سردار عبدالرحمان کھیتران نے کہا کہ مفتی احتشام الحق اور ان کے بیٹے کو شہید کیا گیا ہے وہ پرامن اور سیاسی و مذہبی رہنماء تھے ارکان اسمبلی سے گزارش ہے کہ اس تحریک التواء پر بحث کی جائے صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ یہ مسئلہ سنگین نوعیت کا ہے جس میں دو بے گناہ انسانوں کی جانیں لے گئی ہیں یہ ایوان صوبے کاسب سے اہم اور بڑا ادارہ ہے اور یہاں ارکان عوام کے سرو مال کے تحفظ کے لئے موجود ہیں ہم تحریک التواء پر بحث کی حمایت کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ امن وامان کی صورتحال پر ایوان میں بحث ہو اور امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے صوبائی وزیر رحمت صالح بلوچ نے مفتی احتشام الحق اور ان کے بیٹے مولانا شبیر احمد انسان دوست پرامن سیاسی رہنماء تھے ان کا قتل انتہائی افسوسناک ہے گزشتہ دس سال کے دوران بلوچستان کے جو گیارہ اضلاع امن وامان کے حوالے سے انتہائی متاثر تھے ان میں تربت ،پنجگور،آواران سمیت دیگر علاقے بھی شامل تھے گزشتہ دنوں نیشنل پارٹی کے مرکزی کونسلرپر بھی قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ معجزانہ طور پر محفوظ رہے گزشتہ دس سال میں سیاسی کارکنوں کو قتل کیا جاتا رہا مگر اب مذہبی رہنماؤں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے ان واقعات میں وہ لوگ شامل ہیں جن کو عوام نے مسترد کیا ہے کچھ عرصہ قبل تربت میں 5انجینئروں کو قتل کیا گیا جس پر عوام نے سخت احتجاج کرتے ہوئے مظاہرہ بھی کیا جو دراصل ان لوگوں کے خلاف ایک ریفرنڈم تھا ان واقعات میں را فنڈڈ تنظیمیں شامل ہیں جو بے گناہوں کو نشانہ بنا رہی ہیں اس موقع پر سپیکر نے ایوان میں رائے شماری کرائی جس پر ایوان نے تحریک بحث کے لئے منظوری کرلی جس پر سپیکر نے 28جولائی کے اجلاس میں2گھنٹے بحث کرانے کی رولنگ دی۔

اجلاس میں نیشنل پارٹی کے رکن یاسمین لہڑی نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ 25جولائی مختلف کالجوں میں داخلوں کی آخری تاریخ تھی تاہم بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات تاحال رزلٹ کارڈ و ڈی ایم سی نہ ملنے کی وجہ سے داخلوں سے محروم رہ گئے لہٰذا داخلوں کی آخری تاریخ میں10اگست تک توسیع کی جائے۔صوبائی وزیر تعلیم عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اب ایسا سسٹم نہیں ر ہا کہ طلبہ کو ان کے رزلٹ کارڈ یا ڈی ایم سی بروقت نہ مل سکیں ہم نے تین ماہ کے اندر نتائج کے اعلان کو یقینی بنایا نتائج کے اعلان کو بھی کافی دن گزر چکے ہیں اتنے دنوں میں یہ نہیں ہوسکتا کہ طلبہ کو ان کے رزلٹ کارڈ نہ مل سکے ہوں جبکہ اب تو نتائج سمیت دیگر تمام چیزیں نیٹ پر موجود ہیں جہاں سے حاصل کی جاسکتی ہیں تاہم رکن صوبائی اسمبلی کی تجویز پر داخلوں کی تاریخ میں دس دن کی توسیع کا اعلان کیا۔

اجلاس میں معروف سماجی کارکن عبدالستار ایدھی مرحوم کی روح کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی جمعیت العلماء اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ کی جانب سے یہ واضح فیصلہ آیا کہ پولیس میں غیر قانونی اور شولڈر پروموشن ختم کئے جائیں جس پر فوری طور پرکارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی ترقیاں ختم اور کئی افسران کی تنزلی کی گئی مگر یہ بات حیرت انگیز ہے کہ ایک پولیس افسر فاضل بٹ جن کی تقرری کے بعد سے اب تک کا ریکارڈ نہیں مل رہا اور نہ ہی ان کے بارے میں یہ معلوم ہوسکا ہے کہ وہ کس سطح پر تعینات ہوئے تھے شنید ہے کہ وہ سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور اس وقت ایس پی کے عہدے پر جا پہنچے جبکہ بلوچستان کے پولیس افسران پچیس پچیس سال سے ترقیوں سے محروم اور ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں میں ان کی ترقیوں کا معاملہ بارہا اس ایوان میں اٹھاچکا ہوں اور ہمیشہ جلد مسئلہ حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی رہی مگر یہ مسئلہ جوں کا توں ہے مگر دوسری طرف ایک اہلکار ترقیاں پاتے پاتے ایس پی بن گیا انہوں نے زور دیا کہ مذکورہ افسر کا ریکارڈ ایوان میں پیش کیا جائے جس پر سپیکر نے کہا کہ چونکہ وزیر داخلہ ایوان میں موجود نہیں ان کی آمد پر وہ ان سے اس مسئلے پر بات کریں گی اجلاس میں انجینئر زمرک خان کی عدم موجودگی کے باعث محکمہ تعلیم سے متعلق ان کے سوالات ریکارڈ کا حصہ بنادیئے جبکہ سردار اختر مینگل انجینئر زمرک خان اورسردار عبدالرحمان کھیتران کے محکمہ داخلہ سے متعلق سوالات کے جوابات موصول نہ ہونے کی وجہ سے آئندہ اجلاس کے لئے موخر کردیئے گئے۔

اجلاس میں صوبائی وزیر ایس اینڈ جی اے ڈی نواب محمدخان شاہوانی نے بلوچستان ایمپلائز ایفیشینسی اینڈ ڈسپلن کا ترمیمی مسودہ قانون ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسودہ قانون کو بلوچستان اسمبلی کے قواعدو انضباط کارمجریہ1974ء کے قاعدہ نمبر84کے تقاضوں سے مستثنیٰ قرار دیا جائے اس موقع پر سپیکر نے ایوان کی رائے سے مذکورہ مسودہ قانون متعلقہ کمیٹی کے حوالے کرنے کی رولنگ دی جس کے بعد سپیکر نے اجلاس 28جولائی سہ پہر4بجے تک ملتوی کردیا۔