امریکا نے پاکستان سے افغان مہاجرین کی نقل و حرکت کی دستاویزی تفصیلات مانگ لیں

پیر 25 جولائی 2016 14:28

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔25 جولائی ۔2016ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کو وزارت دفاع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکا نے بارڈر منیجمنٹ اور افغان مہاجرین کی نقل و حرکت کی دستاویزی تفصیلات مانگی ہیں تاہم اس پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ابھی چل رہی ہے۔پیر کو پارلیمنٹ ہاوٴس اسلام آباد میں سینیٹر مشاہد حسین سید کی سربراہی میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس ہوا۔

اجلاس کے دوران سیکرٹری دفاع نے کابینہ کو بتایا کہ برطانیہ دفاعی تعاون فورم کا اجلاس نہایت کامیاب رہا،برطانیہ میں ہم نے کشمیر کا مسئلہ نہایت موثر انداز میں اٹھایا، بین الاقوامی برادری کوبتایا کہ کشمیرکے مسئلہ پرپاکستان کاموقف واضح ہے کہ عالمی برادری مسئلہ کشمیر کو تسلیم کرے۔

(جاری ہے)

ایڈیشنل سیکرٹری دفاع نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان کیدرمیان 200 سے زائد کراسنگ پوائنٹس ہیں تاہم ان میں سے صرف 8 کراسنگ پوائنٹس پر چیکنگ کا نظام موجود ہے ‘ دیگر پر چیک پوسٹ بننی ہیں، طورخم گیٹ تقریباً مکمل ہو چکا ہے، اس کا افتتاح یکم اگست کو کیا جائے گا،غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے طورخم گیٹ کے گرد باڑ لگائی ہے۔

نادرا، ایف آئی اے، کسٹمز اور دیگر ادارے نہایت متحرک ہیں، سرحد پر سی سی ٹی وی کیمروں سمیت دیگر انتظامات بھی کر دئیے ہیں ‘سرحد کراسنگ کے لیے سفری دستاویزات لازمی قراردی ہیں، راہداری کارڈ پر افغان شہریوں کی نقل و حرکت شہید موڑ چیک پوائنٹ تک محدود کردی گئی۔ امریکی کانگریس نے بارڈر مینجمنٹ کے لیے 10 کروڑ ڈالر امداد کی منظوری دی ہے، امریکا سے ملنے والی امداد فاٹا میں ترقیاتی کاموں پر بھی خرچ ہو گی، امریکا نے ہم سے دستاویزی تفصیلات مانگی ہیں، جس پر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت ابھی چل رہی ہے، امریکی حکام پاکستان کا دورہ کر کیمعاملات طے کریں گے۔

اس موقع پر وزیر دفاع خواجہ آصف نے بتایا کہ پاکستان میں افغان مہاجرین اور دہشت گردوں کے درمیان براہ راست تعلق موجود ہے ‘ افغان مہاجرین کی شکل میں دہشت گرد پناہ لے رہے ہیں، افغانستان پہلے اپنے مہاجرین کو واپس لے کر جائے، مہاجرین کے جانے کے بعد اگر یہاں پناہ گاہیں ہوئیں تو ہم ختم کریں گے، بارڈر منیجمنٹ کے بغیر دہشت گردی پر قابو پانا ممکن نہیں، ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے ملک میں آنے والی ٹریفک کو کنٹرول کریں اور ہم اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

متعلقہ عنوان :