‘ہم کشمیری بچوں کو کھو رہے ہیں‘، انڈین میڈیا کے چونکا دینے والے حقائق

کشمیر کے بچوں تعلیم کی بہتر سیولیات میسر ہیں نہ ہی وہ تفریح کیلئے باہر جا سکتے ہیں، بھارت نے ان سے وہ سب کچھ چھین رکھا ہے جو ان کا بنیادی حق ہے،کشمیر کا بچہ بچہ بھارت سے نفرت اور آزادی چاہتا ہے، سروے رپو رٹ

جمعہ 22 جولائی 2016 12:48

سری نگر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22 جولائی۔2016ء) ایک بھارتی خبر رساں ویب سائٹ کے سروے کے مطابق مقبوضہ کشمیر کے بچوں کو نہ تعلیم کی بہتر سیولیات میسر ہیں اور نہ ہی وہ تفریح کیلئے باہر جا سکتے ہیں۔ قابض بھارت نے ان سے وہ سب کچھ چھین رکھا ہے جو ان کا بنیادی حق ہے۔ مقبوضہ کشمیر گزشتہ 70 سالوں سے بھارت کے ظلم و ستم کا شکار ہے۔ اس کی کئی نسلیں بھارتی فوج کی بربریت کا شکار ہوئیں لیکن انھیں سرنگوں نہ کر سکیں۔

مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ بھارت سے نفرت کرتا ہے اور آزادی چاہتا ہے۔ نوجوان رہنما برہان وانی کی شہادت سے مقبوضہ کشمیر میں جاری آزادی کی تحریک کو ایک مرتبہ پھر نئی زندگی ملی ہے۔ برہان وانی کی شہادت کیخلاف مظاہرہ کرنے والوں پر بھارتی فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی جس سے اب تک سینکڑوں کشمیری شہید ہو چکے ہیں۔

(جاری ہے)

پوری وادی میں گزشتہ کئی دنوں نے مکمل ہڑتال ہے اور کاروبار زندگی معطل ہے۔

ایک بھارتی خبر رساں ادارے نے مقبوضہ کشمیر کے کچھ بچوں سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ وہ بھارت کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ ان بچوں کے معصومانہ جوابات نے انڈین میڈیا میں کھلبلی مچا دی ہے۔بھارتی خبر رساں ادارے کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے 13 سالہ صفان نثار کا کہنا تھا کہ بھارت ایک پولیس فورس ہے جو بچوں کو مارتی ہے۔ میرے والدین مجھے گھر سے باہر نہیں جانے دیتے کیونکہ بھارتی پولیس مجھے مار دے گی۔

میں جب مظاہرین کے نعروں کی گونج اپنے کانوں میں سنتا ہوں تو میرا دل بھی کرتا ہے کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو کر بھارت کیخلاف نعرہ بازی کروں، لیکن میرے والدین ڈرتے ہیں۔ 13 سالہ صفان نے کہا کہ ہم بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔بھارت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے 12 سالہ معاون تسنیم نے کہا کہ بھارت ایک ظالم ملک ہے۔ بھارت کشمیریوں کو مارتا ہے اور پھر انھیں غائب کر دیتا ہے۔

ہم پاکستان یا بھارت سے الحاق نہیں چاہتے بلکہ آزادی چاہتے ہیں۔ معاون کا کہنا تھا کہ ہمیں بھارتی پولیس اور فوج پر بالکل اعتبار نہیں، اس لئے ہمارے والدین ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ وہ ہمیں مار سکتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر کی ایک 9 سالہ بچی ردا شفیع کا بھارتی میڈیا سے گفتگو میں کہنا تھا کہ میرے والدین بھارت سے نفرت کرتے ہیں، اس لئے میں بھی اس سے نفرت کرتی ہوں۔

محسن وانی کا کہنا تھا کہ میں ہمیشہ تذبذب کا شکار رہتا تھا کہ کرکٹ میچوں کے دوران میرے والدین اور دیگر رشتہ دار کیوں بھارت کے بجائے پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔ میں نے اس چیز کو محسوس کیا لیکن اس کا کبھی ان سے ذکر نہیں کیا۔ جیسے جیسے میں بڑا ہوا تو مجھے بھارتی ظلم کی داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملیں جو وہ گزشتہ دہائیوں سے ہم کشمیریوں پر ڈھا رہا ہے۔

دانش کا کہنا تھا کہ بھارت ایک شاطر ملک ہے جس نے ہم کشمیریوں پر قبضہ کرکے ہم پر ظلم وزیادتی کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ اگر بھارتی فوج ہماری ہوتی تو وہ کبھی ہم پر گولیاں نہ چلاتی۔ ہم بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے۔چودہ سالہ مہرین کا بھارت کے بارے میں اپنے نظریات بتاتے ہوئے کہنا تھا کہ انڈیا ہماری لڑکیوں کو مار رہا ہے۔ میں نے ان کی تصاویر دیکھی ہیں۔

میں باہر نہیں جا سکتی، کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اں ڈین فوج مجھے بھی گولی مار دیں گے۔ مہرین نے کہا کہ بھارتی فوجی پیلیٹ استعمال کر رہے ہیں جس سے بہت سے نوجوان اندھے ہو چکے ہیں۔ بھارت نے ہمیں خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہم مقبوضہ کشمیر میں محفوظ نہیں ہیں۔بھارتی خبر رساں ادارے نے لکھا ہے کہ یہ جوابات شاید بہت سے بھارتیوں کو بچگانہ سوچ لگے، شاید کچھ یہ بھی کہیں کہ ان بچوں کے ذہن کو پروپیگنڈہ کے ذریعے تبدیل کیا گیا ہے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم کشمیری بچوں کو کھو رہے ہیں۔۔

متعلقہ عنوان :