ترکی میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ ‘گرفتاریوں کا سلسلہ جاری

آپریشن کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے ‘ 60ہزار سے افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے‘ جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمہ تعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج کے 6000 افسران اور اہلکار، اڑھائی ہزار سے زیادہ جج ‘12 ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں:ترک ذرائع ابلاغ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 21 جولائی 2016 10:27

ترکی میں تین ماہ کے لیے  ایمرجنسی نافذ ‘گرفتاریوں کا سلسلہ جاری

انقرہ(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21جولائی۔2016ء) ترک صدر رجب طیب اردوغان نے ملک میں تین ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔انہوں نے اس بات کا اعلان انقرہ میں ایک اجلاس کے دوران کیا۔ انھوں نے کہا کہ اس سے حکام کو بغاوت کے ذمہ داروں کے خلاف تیزی سے کارروائی کرنے میں آسانی ہو گی۔ہنگامی حالت کے نفاذ کے بعد صدر اردوغان کو پارلیمان کو بائی پاس کرنے اور بعض شہری حقوق معطل کرنے کا اختیار مل جائے گا۔

تاہم انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ترک شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں گے۔صدارتی محل میں تقریر کرتے ہوئے انھوں نے کہا مسلح افواج سے تمام وائرس صاف کر دیے جائیں گے۔انھوں نے کہا ہنگامی حالت کے نفاذ کا مقصد اس خطرے کو جلد از جلد ختم کرنا ہے۔

(جاری ہے)

انھوں نے مزید کہا کہ اس سے جمہوریت، قانون کی سربلندی اور آزادی کی اقدار مضبوط ہوں گی۔صدر نے کہا کہ جن لوگوں کی جانیں ناکام بغاوت میں ضائع ہوئیں، ملک ان کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گا۔

ترک صدر نے کہا کہ دوسرے ملکوں کو ترکی کے معاملات سے پرے رہنا چاہیے۔ ’اس ملک کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے۔ادھر جرمن وزیرِ خارجہ فرینک والٹر شٹائن مائر نے ترکی میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے اعلان پر ردِعمل میں کہا ہے کہ ایمرجنسی صرف آخری اقدام کے طور پر لگانی چاہیے تھی اور اسے صرف اتنی مدت تک نافذ رہنا چاہیے جب تک اس کی ضرورت ہے۔

انھوں نے ترک حکومت پر زور دیا کہ اسے مجرموں کو نشانہ بنانا چاہیے، نہ کہ سیاسی حریفوں کو۔دوسری جانب ترک حکام نے گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے الزام میں گرفتار کیے گئے 99 جرنیلوں کے خلاف باقاعدہ فردِ جرم عائد کر دی ہے۔ترک حکام کے مطابق ملک بھر سے ماہرین تعلیم اور دانشوروں کے بیرونِ ملک جانے پر بھی عارضی طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

جرنیوں پر فردِ جرم کا فیصلہ صدر رجب طیب اردوغان کے ان فوجی کمانڈروں کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا گیا جو بغاوت کے دوران ان کے وفادار رہے تھے۔امید ہے کہ وہ جلد ہی اہم اعلانات کریں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان قومی سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں ملک میں استحکام لانے کے منصوبے بھی پیش کریں گے۔انقرہ سے صحافیوں کا کہنا ہے کہ یہ اجلاس ناکام بغاوت کے بعد صدر کے لیے پہلا موقع ہوگا کہ وہ اپنی حکومت اور فوج کے اعلیٰ ترین عہدیداروں سے بیٹھ کر بات کر سکیں۔

جرنیلوں پر فردِ جرم عائد کرنے کا اقدام گذشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد سرکاری عملے کی چھانٹی کے بعد سامنے آیا ہے۔ادھرترکی میں گرفتار، برطرف یا معطل کیے جانے والے افراد کی تعداد 60ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جن میں 21 ہزار اساتذہ سمیت محکمہ تعلیم کے 37 ہزار سے زیادہ ملازمین اور فوج سے تعلق رکھنے والے 6000 افراد، اڑھائی ہزار سے زیادہ جج معطل اور تقریباً12 ہزار پولیس اہلکار شامل ہیں۔

زیرِ حراست افراد میں 100 کے قریب فوجی جرنیل اور ایڈمرل اور صدر کے اعلیٰ ترین فوجی معتمد ہیں۔ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق ملک میں بغاوت میں ملوث افراد کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن جاری ہے اورترکی کے حساس اداروں نے جو فہرستیں مرتب کی ہیں ان کے مطابق لاکھوں افراد کی گرفتاریاں متوقع ہیں اور یہ آپریشن کئی ماہ تک جاری رہ سکتا ہے -دوسری جانب ایک غیرملکی نشریاتی ادارے نے ترک حکومت کے آپریشن پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی کی جیلوں میں جگہ کم پڑنے لگی ہے-

متعلقہ عنوان :