عبدالستار ایدھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک فکر اور نظریہ تھے، ایدھی بلا تفریق رنگ و نسل و عقیدہ انسانیت کی خدمت میں مصروف رہے اور دنیا کی سب سے بڑی خیراتی ایمبولینس سروس بنائی،مرنے کے بعد اپنی آنکھیں عطیہ کر دیں

ایدھی صاحب جیسی شخصیت کو نوبل پرائز دیا جائے تو یہ خود اس انعام کیلئے اعزاز کی بات ہوگی سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر منظور الحق کا عبدالستار ایدھی کی یاد میں دعائیہ تقریب سے خطاب

اتوار 17 جولائی 2016 11:17

ریاض ۔ 17 جولائی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔17 جولائی ۔2016ء) سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر منظور الحق نے کہا ہے کہ عبدالستار ایدھی ایک شخص نہیں بلکہ ایک سوچ، ایک فکر اور نظریہ تھے جو اپنی ذات سے ہٹ کر اور آرام و آسائش چھوڑ کر بلا تفریق رنگ و نسل و عقیدہ انسانیت کی خدمت میں مصروف رہتے تھے۔ان خیالات کا اظہار انھوں نے ریاض میں معروف سماجی کارکن مرحوم عبدالستار ایدھی کی یاد میں ایک دعائیہ تقریب سے خطاب کے دوران کیا۔

انھوں نے کہا کہ وہ بچے جن کو اپنے والدین چھوڑ دیتے یا وہ والدین جنھیں اپنے بچے چھوڑ جاتے ایدھی ان کیلئے سرپرست کا کردار ادا کرتے تھے۔وہ مریض جن کی تیمار داری کرنے والا کوئی نہ ہو ایدھی ان کے تیماردار تھے اس کے علاوہ بے آسرا، یتیم اور ذہنی و جسمانی طور پر معذور افراد کیلئے بھی ایدھی مرکز کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے تھے جہاں بیماروں کا علاج، بچوں کو تعلیم اور معذوروں کو سہارا دیا جاتا تھا۔

(جاری ہے)

سفیر نے کہا کہ ایدھی مرکز لاوارث بچوں کیلئے ٹھکانا ہے جہاں 1999 ء میں 22 ہزار لاوارث بچے زیر کفالت تھے جن کی تعداد اب یقیناکہیں زیادہ ہوچکی ہوں گی۔منظور الحق نے کہا کہ ایدھی صاحب نے ملک بھر میں قریباً 400 ایدھی سینٹر قائم کیے جبکہ دنیا کی سب سے بڑی خیراتی ایمبولینس سروس چلارہے تھے جن کی خدمات خود ایدھی صاحب کے جنازے کے وقت بھی نہیں رکیں۔

انھوں نے بتایا کہ 2003 ء میں ان کی دمشق میں پاکستانی سفارتخانے میں تعیناتی کے دوران عراق میں خراب حالات کے باعث دمشق کے لوگ بھی شہر کو چھوڑ رہے تھے کہ ایدھی صاحب وہاں پہنچ گئے جن کے پاس ہزاروں ڈالر تھے جنھیں وہ عراق میں امدادی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرنا چاہتے تھے۔سفری اجازت ملنے میں مشکلات پر وہ خود سرحدی علاقے میں چلے گئے اور سرحد پار کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔

انھیں ہلال احمر کے دفتر لے جایاگیا تاکہ ان کی مدد سے امداد متاثرہ لوگوں تک پہنچ جائے مگر وہ بھی اس کام کیلئے مدد نہیں کرسکے۔ایدھی صاحب کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ دمشق میں قیام کے دوران ان کی قمیص پھٹ گئی جسے سوئی کی مدد سے ٹانکے لگا کے دوبارہ پہن لیا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 2010 ء میں ملک کے دیگر علاقوں کی طرح خیبر پختونخوا بھی شدید متاثر ہوا جہاں متاثرین کی مدد کیلئے ایدھی صاحب کیمپوں میں پہنچ گئے۔

ان کے ساتھ لوگوں کی محبت کا یہ عالم تھا کہ چند سال پہلے ان کے ساتھ لندن میں ملاقات ہوئی جہاں وہ یوم پاکستان کی تقریب میں شرکت کیلئے آئے تھے اور وہاں موجودگی کے دوران لوگ مسلسل ان کے ساتھ تصویریں بنواتے رہے حتی کہ انھیں ریفرشمنٹ بھی نہیں کرنے دی جارہی تھی۔ایدھی صاحب میں عجز و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری تھی وہ زمین پر بیٹھ کر کھانے پینے میں عار نہیں محسوس نہیں کرتے تھے ۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر انسان کی زندگی سے حسد، تکبر اور لالچ نکل جائیں تو یہ بہت حسین ہوجائے۔خدمت خلق کا یہ عالم تھا کہ آخری وقت وصیت کی کہ میرے مرنے کے وقت جسم کا جو بھی حصہ کسی کے کام آسکتا ہو تو دے دیا جائے جس پر دو افراد کو ان کی آنکھیں عطیہ کر دی گئیں جو اب پوری طرح دیکھ سکتے ہیں۔سفیر نے کہا کہ ایدھی صاحب کی تربیت کا یہ اثر تھا کہ ان کی اہلیہ بلقیس ایدھی، دوبیٹے اور دوبیٹیاں بھی خدمت خلق میں اپنا آرام اور آسائش بھول چکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایدھی صاحب جیسی شخصیت کو نوبل پرائز دیا جائے تو یہ خود اس انعام کیلئے اعزاز کی بات ہوگی۔