پاکستان میں مقیم افغان عوام کو غیر قانونی طریقے سے تنگ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ،محمود خان اچکزئی

میرے انٹرویو کوصحیح معنوں میں نہیں سمجھا گیا اور محض چند الفاظ نکال کر غلط طور پر واویلا کیا گیا اگر کسی کو غلط شناختی کارڈ جاری ہوا ہے وہ یا تو کسی کے اشارے پر جاری ہوا ہے یا پھر انہوں نے بہت بڑی رقم دی ہوگی، اس میں جو بھی ملوث ہے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے ہم اِس ریاست کے شہری ، اس کے قوانین ،آئین کو مانتے ہیں مگر ماورائے آئین کوئی عمل ہمیں قبول نہیں اور نہ ہی کسی اور کو قبول ہونا چاہئی، نجی ٹی وی کو انٹرویو

جمعہ 1 جولائی 2016 21:56

کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔یکم جولائی ۔2016ء) پشتونخواملی عوامی پارٹی کے چےئرمین رکن قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان عوام کو غیر قانونی طریقے سے تنگ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت انہیں یہاں رہنے کا حق ہے جب معاہدہ ختم ہو تو بیشک انہیں باعزت طریقے سے بھیجا جائے،میرے انٹرویو کوصحیح معنوں میں نہیں سمجھا گیا اور محض چند الفاظ نکال کر غلط طور پر واویلا کیا گیا، اگر کسی کو غلط شناختی کارڈ جاری ہوا ہے وہ یا تو کسی کے اشارے پر جاری ہوا ہے یا پھر انہوں نے بہت بڑی رقم دی ہوگی ۔

اس میں جو بھی ملوث ہے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے مگر جعلی شناختی کارڈوں کا ملبہ پشتونخوامیپ پر نہ ڈالا جائیں اور نہ ہی خیبر پختونخوا ، فاٹا ، جنوبی پشتونخوا کے عوام کے شناختی کارڈز کو بند کرنیکی اجازات دینگے، ہم اِس ریاست کے شہری ہے ہم اس کے قوانین ،آئین کو مانتے ہیں مگر ماورائے آئین کوئی عمل ہمیں قبول نہیں اور نہ ہی کسی اور کو قبول ہونا چاہئیے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک نجی ٹی وی کو تفصیلی انٹرویو دیتے ہوئے کیا ،انہوں نے کہا کہ میں نے ایک ہفتہ قبل وائس آف امریکہ کے پشتو چینل کو انٹرویو دیا تھا جو ریکارڈ پر موجود ہے جو بھی لکھنا یا سننا چاہے سن سکتا ہے جہاں تک اس وطن کا تعلق ہے کہ یہ وطن افغان تھا یہ افغان ہے اس حوالے سے میں نے پارلیمنٹ میں کئی بار واضح طور پر سب کچھ کہا ہے کہ جب انگریز بہادر یہاں نہیں آیا تھا دریا امو سے لیکر انڈس تک یہ افغانوں کا وطن اور آزاد ریاست تھا اسلامی دنیا جس کا علامہ اقبال نے اپنے مشہور نظم میں ذکر کیا ہے کہ ” نیل کے ساحل سے لیکر تابہ خاک ِکاشغر تک ۔

۔۔واحد ہی افغان لوگ تھے جو آزاد مختار تھے باقی ساری مسلم دنیا سوائے ترکی کے تقریباً مختلف استعماری وسامراجی ممالک کے سامنے سرنڈر ہوگئی تھی پھرجب ہندوستان قبضہ ہوا تو برٹش انڈیا نے جس آدمی کو اپنا پہلا سفیر بنا کر افغانستان بھیجاجس کی کتاب ” دی کنگ ڈم آف کابل “ ہے اس شخص نے پہلے سفیر کی حیثیت سے 1805ء میں اپنے سفارت کے کاغذات” بالا حصار“پشاور میں افغان بادشاہ شاہ شجاع کے دربار میں پیش کےئے پشاور تمام افغانوں کا 1820تک سرمائی درالخلافہ تھا یہ تو ہمارا تاریخی رشتہ ہے افغانستان سے اوراس سے بھی ہمارے عوام بخوبی آگاہ کہ جب ڈیورنڈ لائن کھنچی گئی تو افغان وطن تقسیم ہوا تو ہم افغانستان کے شہری نہیں رہے لیکن ہم افغان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب افغانستان میں سوویت یونین کی فوجیں داخل ہوئی تو ہمارے استعماری حکمرانوں نے تمام افغانوں کو دعوت دی اور ان سے کہا کہ افغانستان” دارالحرب “ بن چکا ہے کفر داخل ہوگیا ہے لہٰذاآپ لوگ ہمارے طرف آئیں ہم آپکی مدینہ کے انصار کی طرح استقبال کرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان سے آئے ہوئے کھڈوال عوام کاتمام ریکارڈ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو این ایچ سی آر کے ریکارڈ پر موجود ہے ۔

ہم یہاں کہتے نہ تھکتے تھے کہ افغانوں نے ہمارے لےئے بڑی قربانیاں دی ہیں کہ روس کے ساتھ لڑکر نہ صرف اپنا دفاع کیا بلکہ پاکستان کا بھی دفاع کیا ہمارے حکمران انہیں مہاجرین نہیں بلکہ مجاہدین کی نام سے پکارتے تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب جنرل مشرف کی پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے انگریزی میں پوچھا Rables in afghanistan لیکن مشرف نے اسے برجستہ جواب دیا کہ Rables مت کہو بلکہ فریڈم فائٹرز آف افغانستان تو یہ الگ رشتہ تھا پاکستان کا افغانستان کے لوگوں کے ساتھ ۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے ساتھ معاہدے کے تحت افغانستان کے لوگ پاکستان میں موجود ہے۔ اگر اب انہیں جانا چاہیے یا کوئی بھیجنا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن یہ ایک غلط عمل ہے کہ ان کے بہانے یہاں کے مقامی پشتون عوام کے شناختی کارڈ ز بلاک کےئے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ ہم پشتونخوامیپ کسی بھی غیر ملکی کو شناختی کارڈ دینے کے حق میں نہیں ہے مگر ہم کہتے ہیں جس طرح دبئی ودیگر ممالک میں لاکھوں پاکستانی ، انڈین ، انڈونیشیا ودیگر ممالک کے لوگ رہتے ہیں تو انہیں ورک پرمٹ دیا جاتا ہے اور وہ وہاں زندگی بسر کرتے ہوئے اپنا کاروبار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مقیم افغان عوام کو غیر قانونی طریقے سے تنگ کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دی جاسکتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت انہیں یہاں رہنے کا حق ہے جب معاہدہ ختم ہو تو بیشک انہیں باعزت طریقے سے بھیجا جائیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں اسلام کا بڑا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اور قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے کہ اگر کوئی منافق آپ کو کوئی اطلاع دے تو اس کی آپ ہر لحاظ سے تحقیقات کر لیں کہ اس کام میں کوئی بے گناہ شخص خراب نہ ہوجائیں۔

اگر کسی نے کچھ سنا ہے تو کم از کم اس کی تحقیقات ہونی چاہے میں نے وائس آف امریکہ کو اپنی انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ کسی کو افغان کھڈوال سے پنجاب ، سرائیکی ، سندھ یا بلوچ عوام تنگ ہے تو انہیں پشتونخوا وطن کی طرف بھیجا جائیں وہ یہاں آرام سے رہینگے ۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح کی کہ میرے انٹرویو کوصحیح معنوں میں نہیں سمجھا گیا اور محض چند الفاظ نکال کر غلط طور پر واویلا کیا گیا ۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی افغانستان میں سنٹرل اور جنوبی پنجاب کے ہزاروں لوگ بغیر پاسپورٹ کے مستری ، پلمبر ودیگر مزدوری کا کام کررہے ہیں اور ان کے ساتھ افغانستان میں کوئی غلط رویہ روا نہیں رکھا جاتا افغان عوام اب بھی اپنے آپ کو پاکستان کا بہترین دوست سمجھ رہے ہے آج بھی قندہار ، کابل ، غزنی ، ہرات میں پاکستانی کرنسی ایسے چلتی ہے جیسے لاہور میں چل رہی ہے ۔

اب اگر کوئی عوام کے مابین کوئی گڑ بڑ ھ یا نفرتیں پیدا کرنا چاہتی ہے تو یہ خطرناک عمل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم واضح اور نرم الفاظ میں یہ کہہ رہے کہ ہم مسلمان انسان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ بات کرنا چاہتے ہیں کہ ہم یہاں افغانوں کو ناحق اور بلاوجہ تنگ کرنے نہیں دینگے ۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے وطن میں بڑے سخت اور جانفشانی کی مزدوری یہی لوگ کرتے ہیں اور انہیں دہشت گرد وں کی صف میں پیش کرنا غلط ہے ۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں ہمارے حکمرانوں نے اپنے مقصد کیلئے ازبک ، تاجک ، چیچن ، چائنا کے ایغور کو وزیرستان لے آئیں ان کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دےئے گئے کیا وہ بھی پشتونخوامیپ نے دےئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ایک مہینہ قبل کوئٹہ کے صوبائی اسمبلی میں ہمارے چار اسمبلی کے ممبران نے نادرا اور پاسپورٹ کے غلط کاریوں کی نشاندہی کی تو اگلے روز نادرا کے ڈی جی نے وزارت داخلہ اسلام آباد اور نادرا کے چےئرمین کوخفیہ خط لکھا اور یہ خط اسی وقت تمام چینل اور سوشل میڈیا میں چلا کر ہمیں دنیا جہاں کی گالیاں دی گئی مگر ہم واضح طور پر کہنا چاہتے ہیں کہ ہم نے کبھی کسی غیر ملکی کو شناختی کارڈ نہیں دیا ۔

انہوں نے کہاکہ اگر کسی کو غلط شناختی کارڈ جاری ہوا ہے وہ یا تو کسی کے اشارے پر جاری ہوا ہے یا پھر انہوں نے بہت بڑی رقم دی ہوگی ۔ اس میں جو بھی ملوث ہے اسے سخت سے سخت سزا دی جائے مگر جعلی شناختی کارڈوں کا ملبہ پشتونخوامیپ پر نہ ڈالا جائیں۔ اور نہ ہی خیبر پختونخوا ، فاٹا ، جنوبی پشتونخوا کے عوام کے شناختی کارڈز کو بند کرنیکی اجازات دینگے ۔

محمود خان اچکزئی نے ڈیورنڈ لائن کے سوال پر کہا کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہمارے خطے میں سوائے ایران کے باقی تمام ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ سرحدی تنازعات ہے چین اور انڈیا 1960ء کی دہائی میں جو مشہور فکرہ سلوگن دے رہے تھے کہ ہند چین بھائی بھائی لیکن اس کے باوجود ان کے درمیان بڑی لڑائیاں ہوئی سینکڑوں فوجی مارے گئے توپیں استعمال ہوئی اب بھی تنازعہ موجود ہے ہمارے اور انڈیا کے درمیان کنٹرول لائن پر تنازعہ موجود ہے اور اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعہ ہے ہم نے یہ سیکھنا ہوگا کہ اس تنازعہ کے ہوتے ہوئے ہم اچھے ہمسائیوں کی طرح کس طرح رہ سکتے ہیں اور ڈیورنڈلائن کو جائز یا ناجائز سمجھ کر میں کوئی فتویٰ نہیں دے سکتا کیونکہ میں مفتی نہیں ہوں البتہ میں بغیر پاسپورٹ کے کبھی افغانستان نہیں گیا ۔

انہوں نے کہا کہ ہم اِس ریاست کے شہری ہے ہم اس کے قوانین ،آئین کو مانتے ہیں مگر ماورائے آئین کوئی عمل ہمیں قبول نہیں اور نہ ہی کسی اور کو قبول ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ یہاں جو افغان آئے ہیں ان کو تنگ نہ کیا جائے کہ تم افغان ہو اگر اقوام متحدہ اور ریاست پاکستان ان کو واپس بھیجنا چاہتی ہے تو ان کو بیشک معاہدے کے تحت بھیج دے مگر یہ سن کر حیرت ہوگی کے اس بہانے جنوبی پشتونخوا ، خیبر پشتونخوا ، فاٹاکے مقامی لوگوں کے 2لاکھ شناختی کارڈ بلاک کےئے گئے جس کی ہم بدترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ تاریخ میں ہیروڈوٹس سے لیکر آج تک کسی مورخ نے افغان پشتون عوام کو دہشت گرد قرار نہیں دیا نہ فرقہ پرست۔

یہ بیماریاں ہم یہاں سے سیکھ رہے ہیں اور یہ بیماریاں نہ صرف ہمیں بلکہ سارے خطے کو ڈبو دے گی انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان دونوں ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ مداخلت ہورہی ہے اور نان سٹیٹ ایکٹر کوپالا جارہا ہے اس مسئلے پر میں نے یہ تجویز کی کہ امریکہ ، چین ، پاکستان اور افغانستان جو افغانستان اور طالبان کے درمیان مذاکرات کو مانیٹر کررہے ہیں وہ یہ ڈیوٹی بھی چین اور امریکہ کے حوالے کرے کہ وہ سیٹلائٹ سے ڈیورنڈ لائن کو مانیٹر کرے کہ کون مداخلت کررہا ہے اور چار ملکی کمیٹی کو رپورٹ پیش کرے انہوں نے کہا کہ تب تک تو افغانستان میں لڑائی جائز تھی جب وہاں روس کی فوجیں تھی جب معاہدہ ہوا تو روسی فوج جانے لگی اس وقت کے افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے کیلئے تیار ہوئے اس وقت یہ ہونا چاہیے تھاکہ انتقال اقتدار پر امن ہوتا اور بینن سیوان کے پلان کو کامیابی سے ہمکنار کیا جاتا مگر امریکہ سمیت پاکستان اور وہ قوتیں جنہوں نے اس کو مقدس جنگ قرار دیا یہ سب ذمہ دار ہے کہ بینن سیوان کے فارمولے کو سبوتاژ کیا گیا انہو ں نے کہا کہ اگر میں یہ کہوں کہ میرے گھر کے چار دیواری میں کوئی نہ جھانکیں اور میرے بچے ہر گھر میں کھودتے پھرتے رہے توپھر میری خودمختیاری نہیں رہیگی ۔

انہوں نے کہا کہ آج بھی پشاور کے پٹوار خانے کے ریکارڈ میں پرویز خٹک ، اسفندیار ولی خان ، آفتاب شیرپاؤ خان ،مولانا فضل الرحمن کے ریکارڈ میں قوم افغان لکھا گیا ہے ۔ اور پرویز خٹک جو میری انٹرویو کو صحیح طور پر سمجھ نہیں سکے اور ناراض ہے تو میں ان کے دادا خوشحال خان خٹک کی 15ویں صدی میں جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ پشتونوں کی خود مختیاری کو مغل حکمران سے خطرات لاحق ہے تو انہوں نے یہ مشہور شعر کہا تھا جو میں پرویز خٹک کوہدیہ کی طور پر پیش کرتا کہ ” درست پشتون لہ قندہارہ تر اٹکہ ۔

۔۔ سرہ یو د ننگ پہ کار پٹ او اشکار “ ( یعنی یہ کہ ننگ اور غیر ت کے کام میں قندہار سے لیکر اٹک تک تمام پشتون ایک اور متحد ہے) ۔ انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ پر امن اور جمہوری فیڈریشن آف پاکستان پرامن ریاست افغانستان کے ساتھ رہ سکتا ہے ۔