Live Updates

تحریک انصاف نے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کر دیا

پنجاب حکومت نے ناکامیوں کی طویل داستان رقم کی، شہباز شریف نے نہ صوبے سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا اور نہ ہی اپنا نام تبدیل کیا، صوبے میں حکومتی دعوؤں کے برعکس16سے 20گھنٹے کی لوڈ شیڈ نگ کی جا رہی ،ایل این جی منصوبہ بھی کرپشن کی نذر ہو گیا، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ بھی فلاپ رہا، بجٹ 2015-16میں امن وامان کی بحالی کیلئے خطیر رقم رکھنے کے باوجود جرائم کی شرح میں90فیصد اضافہ ہوا، اس وقت میرٹ اور قانون کے برعکس131کی بجائے911 شخصیات کو سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا اور مجموعی طور پر43ہزار918پولیس اہلکاروں اور افسران کو وی وی آئی پیز کی سکیورٹی پر تعینات ہیں ،پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الر شید

جمعہ 1 جولائی 2016 21:27

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔یکم جولائی ۔2016ء) پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الر شید نے پنجاب حکومت کی کارکردگی پر وائٹ پیپر جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب حکومت نے ناکامیوں کی طویل داستان رقم کی، شہباز شریف نے صوبے سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کیا اور نہ ہی اپنا نام تبدیل کیا، ن لیگ کی حکومت میں بجلی کی قیمتیں ڈبل ہو گئیں، صوبے میں حکومتی دعوؤں کے برعکس16سے 20گھنٹے کی لوڈ شیڈ نگ کی جا رہی ہے، چیچوں کی ملیاں پاور پلانٹ تین ارب لگنے کے بعد بند ہو گیا، گڈانی پاور پراجیکٹ کے افتتاح اور ابتدای کاموں پر کروڑوں روپے لگے اور بند ہو گیا، ایل این جی منصوبہ بھی کرپشن کی نذر ہو گیا، نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ بھی فلاپ رہا،40ارب کا منصوبہ450ارب تک پہنچ گیا اور اچانک بند کرکے خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا گیا، قادر پور کول پراجیکٹ بھی فلاپ رہا ،ماہرین کے مطابق یہ منصوبہ چل ہی نہیں سکتا۔

(جاری ہے)

امن وامان پر جاری کردہ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے بجٹ 2015-16میں امن وامان کی بحالی کیلئے ایک سو نو ارب25کروڑ روپے مختص کئے گئے تھے لیکن خطیر رقم رکھنے کے باوجود ایک سال کے دوران جرائم کی شرح میں90فیصد اضافہ ہوا۔ بجٹ میں شہروں میں سیف سٹی پروگرام کا اجراء اور عوام کوروایتی تھانہ کلچر سے نجات دلانے کیلئے پنجاب بھر میں80پولیس سروس سنٹر کے قیام کا اعلان کیا گیا جسے آج تک عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔

عوام کو بے رحم تھانہ کلچر اور ڈاکوؤں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا۔ عوام کی حفاظت کی بجائے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو وی وی آئی پیز کی حفاظت پر مامور کر رکھا ہے۔ اس وقت میرٹ اور قانون کے برعکس131کی بجائے911 شخصیات کو سرکاری پروٹوکول دیا جا رہا اور مجموعی طور پر43ہزار918پولیس اہلکاروں اور افسران کو وی وی آئی پیز کی سکیورٹی پر تعینات ہیں ،صرف ماڈل ٹاؤن، جاتی عمرہ اور حکمران خاندان کی سکیورٹی پر ہزاروں پولیس اہلکار اور سیکڑوں ایلیٹ فورس کے جوان تعینات ہیں۔

پانی پر جاری وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ حکومت نے پینے کے صاف پانی کے مختلف منصوبوں پر 3سالہ سکیم شروع کرنے کا اعلان کیا لیکن نیا مالی سال شروع ہو گیا لیکن اس پر کام کا آغاز نہ ہو سکا، یہاں تک کے 2002میں بھی مختلف مقامات پر200فلٹر پلانٹ لگانے کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ لاہور سمیت پنجاب کے بیشتر شہروں میں پینے کے پانی میں انسانی فضلے کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے، حکومتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کاہنہ کے مقام پرانسانی فضلے کی مقدار100ملی لیٹر میں 38جبکہ گجومتہ میں15پوائنٹ ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پانی میں انسانی فضلے کی مقدار صفر ہونی چاہئے۔

اعدادوشمار کے مطابق ایک سال کے دوران اڑھائی لاکھ بچوں سمیت11لاکھ افراد زہریلا پانی پینے سے ہلاک ہوئے‘ لاہور، اسلام آباد، بہاولپور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، قصور، گجرات، ملتان، لیہ، سرگودہا، سیالکوٹ سمیت دیگر شہروں کا پانی پینے کے قابل نہیں ان میں آرسینک کی وسیع مقدار پائی گئی۔ حکومت کی غفلت کے باعث لاہور میں24،اسلام آباد75،اٹک28،بہاولپور50،فیصل آباد، گوجوانوالہ میں 68، گجرات، قصور میں78،ملتان48، سرگودہا77شیخوپورہ میں44 اورسیالکوٹ میں45فیصد لوگ نہ صرف گندہ اور آرسینک ملا زہریلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔

صحت پر جاری وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے سرکاری ہسپتالوں میں ادویہ نہیں، ڈاکٹر، پیرا میڈیکل سٹاف اور مریض سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب میں سب سے بڑا صوبہ ہونے کے باوجود صحت کی صورتحال قابل تشویش ہے، سرکاری تو سرکاری پرائیویٹ ہسپتال بھی صحت کی بنیادی سہولیات نہیں دے رہے۔ حکومت کی غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صوبے میں وزیر صحت ہی نہیں، عالمی ادارہ صحت(who) کے مطابق1000افراد کی آبادی کیلئے کم ازکم ایک ڈاکٹر،200افراد کیلئے ایک ڈینٹیسٹ ہونا چاہئے جبکہ5مریضوں کی دیکھ بال کیلئے ایک نرس کا ہونا ضروری ہے۔

لیکن بدلا ہے پنجاب کا نعرہ بلند کرنے والے نا اہل حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی بدولت پنجاب میں2173افراد کیلئے ایک ڈاکٹر،400افراد کیلئے ایک ڈینٹیسٹ ہے۔ تعلیم پر جار ی کردہ وائٹ پیپر میں کہا گیا ہے کہ اکیڈمی آف ایجوکیشن پلاننگ مینجمنٹ(AEPAM)کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ20لاکھ بچے out of school ہیں جبکہ آئین پاکستان کے آرٹیکل25-Aکے مطابق ریاست 5تا 15سال کی عمر کے ہر بچے کو مفت اور لازم تعلیم فراہم کریگی لیکن بدقسمتی سے پنجاب کے حکمران آئین پاکستان میں درج بنیادی انسانی حقوق عوام تک پہنچانے سے قاصر ہیں۔

اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبے کو تعلیم کے معاملات میں خود مختاری مل گئی لیکن اسکے باوجود صوبے نے تعلیمی شعبے میں ترقی نہیں کی ۔حکومت کی عدم توجہی کے باعث پنجاب میں مجموعی طور پر تعلیمی گراف3.38فیضد نیچے آیا جبکہ کے پی کے میں تعلیمی گراف13.15فیصد اوپر گیا۔پنجاب بھر میں15ہزار گھوسٹ سکول، ہزاروں سکول بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، جنوبی پنجاب کے سکولوں پر وڈیرے قابض ہیں اورکئی میں گھوڑے بندھے ہیں۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات