الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات 2015ء پر اپنی رپورٹ جاری کر دی

جمعہ 1 جولائی 2016 15:15

اسلام آباد ۔ یکم جولائی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔یکم جولائی۔2016ء) الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات 2015ء پر اپنی رپورٹ جاری کر دی ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ عام انتخابات کے مقابلہ میں بلدیاتی انتخابات میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ الیکشن ٹربیونل 120 دن میں 4053 عذرداریوں میں سے صرف 984 نمٹا سکا۔ الیکشن کمیشن کے پاس ایسے اختیارات نہیں کہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے ٹربیونلز کے خلاف کارروائی کرے۔

جمعہ کو الیکشن کمیشن میں حالیہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر سیکریٹری الیکشن کمشن بابر یعقوب خان نے بتایا کہ کل 122 ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران، 1589 ریٹرننگ افسران، 2587 اسسٹنٹ ریٹرننگ افسران نے خدمات سرانجام دیں۔ ملک بھر میں 7 لاکھ 4 ہزار 861 پریزائیڈنگ، اسسٹنٹ پریزائیڈنگ اور پولنگ افسران نے خدمات سرانجام دیں۔

(جاری ہے)

بلدیاتی انتخابات کے لئے 23 کروڑ 43 لاکھ بیلٹ پیپرز چھپائے گئے۔ یونین کونسل کی سطح پر ایک فیصد اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔ ان انتخابات پر 6 ارب 25 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ 2 ارب پرنٹنگ، 2 ارب 11 کروڑ روپے جنرل آپریشن، ایک ارب ٹرانسپورٹیشن پر، نادرا کو پرنٹنگ کے لئے 8 کروڑ روپے، 8 کروڑ 20 لاکھ روپے ووٹر ایجوکیشن پر خرچ کئے۔ الیکشن کمیشن نے ڈیڑھ ارب روپے کمائے جو صوبوں کے خزانہ میں چلا گیا۔

ہم نے پی سی ایس آئی آر کو 70 روپے سیاہی کے لئے دیئے۔ دو مراحل میں ہزاروں ٹریننگ سیشن منعقد کئے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے لئے 236 رجسٹرڈ جماعتوں میں سے 91 نے الیکشن میں حصہ لیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سارے ملک میں حصہ لیا۔ کے پی کے 3، اسلام آباد، بلوچستان کے 7 اضلاع میں ان کی حکومت بنا چکی ہے۔ پولنگ کی شرح بڑھانے کے لئے ہماری کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں۔

پنجاب میں 61.1 فیصد ٹرن آؤٹ رہا۔ سندھ 46.2 فیصد، کے پی کے 43.5 فیصد، بلوچستان 26.8 فیصد، اسلام آباد 54.8 فیصد رہا۔ پنجاب کے علاوہ تمام صوبوں میں ٹرن آؤٹ کم رہا۔ ان انتخابات میں مجموعی ٹرن آؤٹ 46.5 فیصد اور عام انتخابات 2013ء میں یہ 51.1 فیصد تھا۔ انہوں نے بتایا کہ شہری علاقوں میں ووٹ دینے والوں کی شرح کم ہے۔ اسلام آباد میں ایف ٹین 27، ایف سکس 34، ایف سیون ایٹ میں 29 فیصد رہا جبکہ سیدپور، مغل ویلیج میں 68 فیصد رہا۔

شہری علاقوں میں ٹرن آؤٹ بڑھانے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کے پی کے میں ایک ضلع لوئر دیر کی یونین کونسل میں وومن نشست پر امیدواروں نے بھی اپنے آپ کو ووٹ نہيں دیئے۔ انہوں نے بتایا کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران تین ہزار 881 شکایات موصول ہوئیں۔ ان میں سے تین ہزار 877 نمٹا دی گئی تھیں۔ اکثر شکایات پولنگ سٹیشن کی جگہ، عملہ کے حوالے سے تھیں۔

ضابطہ اخلاق دیگر خلاف ورزیوں پر 50 شکایات میں سے 46 نمٹا دی گئیں۔ پہلی بار مبصرین کے لئے قانون بنایا۔ ان کی اہلیت، سیکورٹی سمیت تمام ایس او پیز مشاورت سے بنائے۔ میڈیا اور دیگر مانیٹرنگ کرنے والے اداروں کو 7 ہزار 660 ایکریڈیٹیشن کارڈ جاری کئے گئے۔ ہمیں توقع ہے کہ صرف فافن نے پولنگ اسٹیشنوں پر جا کر جائزہ لیا۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم فرضی تجربہ کے خلاف ہیں۔

انتخابات پر انگلی اٹھانا غیر مناسب ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک میں اس کی اجازت نہیں۔ ہم نے عالمی ماہرین کو بھی اجازت دی۔ جس نے انتخابی عمل دیکھا ہی نہیں وہ تنقید کرے، یہ مناسب نہیں۔ کچھ اداروں کی سیکورٹی کلیئرنس نہیں تھی، وہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے سب سے زیادہ تنقید کی۔ ایڈیشنل سیکریٹری نے بتایا کہ 162 الیکشن ٹربیونلز میں 4 ہزار 53 عذرداریاں موصول ہوئیں۔

3 جون تک صرف 984 نمٹائی گئیں۔ 3 ہزار 69 ابھی تک التواء میں ہیں۔ ٹربیونل اپنی ذمہ داریاں نہیں دیتا اور الزام بڑے اداروں پر آتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیارات نہیں ہیں کہ اگر الیکشن ٹربیونل 120 دن میں اپنی عذرداریاں نہیں نمٹاتے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی کر سکے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے مقابلے میں تیسرے مرحلہ میں پرنٹنگ کی غلطیاں کم ہوئیں۔

پہلی بار ایک صوبہ کے عملہ کو دوسرے صوبہ میں لگایا۔ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر کارروائی کی گئی۔ الیکشن کمیسن کے ممبران نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں انتخابات رکے ہیں۔ پنجاب میں کیس عدالت میں ہے، ہم استدعا کرتے ہیں کہ جلد یہ کیس نمٹا دیا جائے۔ خواتین کی جانب سے ٹرن آؤٹ میں کمی نہیں، سنجیدہ مسئلہ ہے۔ جن علاقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ کم ہے وہاں پر خواتین ہوں گی، عملہ خواتین سیکورٹی تعینات کر رہے ہیں۔

ووٹ کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے 10 جولائی سے مہم چلائیں گے۔ یکم سے 15 اگست تک ووٹر فہرستوں کی تصدیق کریں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پریزائیڈنگ افسران مقامی ڈر اور خوف کا بعض اوقات شکار ہو جاتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ ایسے لوگ تعینات کریں جو اپنے اختیارات استعمال کر سکیں۔ 2013ء کے عام انتخابات کے حوالے سے رپورٹ عید کے بعد جاری کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ انتخابی عذرداریاں بروقت نہ نمٹانے پر سزا کے بارے میں قانون سازی بھی انتخابی اصلاحات کے یکساں قانون میں شامل ہے۔